علماء اسلام کے نقطۂ نظر سے انتہاپسند اور تکفیری تحریکوں پر عالمی کانفرنس" عنوان کے تحت قم میں منعقد ہونے والی دو روزہ کانفرنس ۲۴ نومبر کو اختتام پذیر ہوئی۔اس کانفرنس کے اختتام پر قریب ۸۰ ممالک سے حاضر ہونے والے ۳۱۵ شیعہ اور سنی علماء نےمشترکہ طور پر ایک بیان جاری کیا جس کو مصر سے آئے ہوئے سنی عالم دین "شیخ نبیل نعیم" نے پڑھا۔علماء کا مشترکہ بیان اس طرح سے ہے:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
یا ایها الذین امنو ادخلوا فی السلم کافه ولا تتبعوا خطوات الشیطان انه لکم عدو مبین
دنیا کے موجودہ حالات کہ جس میں امت اسلامیہ کو بین الاقوامی سطح پر اپنا شائستہ مقام حاصل کرنے کی ضرورت ہے، افسوس کی بات ہے کہ عالم اسلام کو اپنے تلخ ترین اور سخت ترین دور کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انتہا پسند اور تکفیری تحریکوں کے اقدامات سبب بنے ہیں کہ اسلام عزیر کا چہرہ مکدر ہو،مسلمان افتراق اور تفرقہ کا شکار ہوں،عالم اسلام کے بنیادی مسائل طاق غفلت کے سپرد کر دئے جائیں،دشمنوں کے محاذ کو استحکام ملے اور ان کا تسلط قائم رہے، اسلامی ممالک کی دولت و ثروت اور قدرتی ذخائر کو تاراج کیا جاتا رہے۔یہ تکفیری اور انتہا پسند عناصر بے گناہ مسلمانوں کی جان، مال اور عزت و آبرو کو مباح جانتے ہوئے پوری قساوت و بربریت کے ساتھ انہیں اپنے منحرف نظریات اور ظالمانہ اعمال کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔
ایسے حالات میں، دین اسلام کی جامعیت،اسکی عالمی اور ابدی رسالت پر ایمان رکھتے ہوئے،علماء اعلام کا فریضہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس باطل تحریک کی ماہیت و حقیقت اور انکے انحرافات کو روشن کرنے کے ساتھ ساتھ حقیقی اسلام کی تعلیمات سے دنیا کو روشناس کرایا جائے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قول کی روشنی میں کہ جس میں آپ فرماتے ہیں"اذا ظهرت البدع فللعالم ان یظهر علمه و اذا کتم فعلیه لعنۃ الله،لازم ہے کہ علماء سر اٹھانے والی ان بدعتوں اور ان کے مہلک نتائج کے مقابلہ میں اپنا لازمی کردار پیش کریں۔
اسی بنیاد پر قم کے حوزہ علمیہ سے وابستہ دو گرانقدر مراجع تقلید کی دعوت پر "علماء اسلام کے نقطۂ نظر سے انتہا پسند اور تکفیری تحریکوں پر عالمی کانفرنس" عنوان کے تحت ۲۳ اور ۲۴ نومبر کو قم میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں ۸۰ ممالک سے سیکڑوں علماء اور مفکرین نے شرکت کی تاکہ انتہا پسند اور تکفیری تحریکوں کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ کانفرنس کے نتائج اور اس میں منظور ہونے والے نکات اور مسائل کو مندرجہ ذیل صورت میں پیش کیا جائے:
۱:اسلام ،رحمت،اخوت اور احسان و نیکی کی طرف دعوت دینے والا دین ہے۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی اپنی بعثت کے مقصد کو مکارم اخلاق اور اخلاقی اقدار کی تکمیل بتایا ہے۔ قرآنی آیات کے مطابق اسلام کی ترویج اور ذات پیغمبر (ص) کی جانب پائے جانے والے رجحان کا سبب بھی آنحضرت کی عطوفت و مہربانی ہی رہی ہے؛ فبما رحمۃ من الله لنت لهم و لو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک (آل عمران/۱۵۹)
ان تمام باتوں کے پیش نظر تمام مسلمین،بالخصوص علماء اور دانشورحضرات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ائمۂ اہل بیت علیہم السلام نیز مذاہب اسلامی کے علماء و قائدین کی پیروی کرتے ہوئے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کے ساتھ صلح، مودت و محبت سے لبریز رویہ کو اپنا سرنامہ عمل قرار دیں۔جس طرح سے بھی ممکن ہو اسلام کو بے رحم اور بدنما دکھائے جانے کا مقابلہ کریں۔
۲۔ دین اسلام نے اپنے مخالف افکار و نظریات کے مقابلہ میں تین اصول کو پیش کیا ہے: حکمت، نصیحت اور جدال احسن:ادع الی سبیل ربک بالحکمه و الموعظه الحسنه و جادلهم التی هی احسن (نحل/۱۲۵)
لہٰذا مذاہب اسلامی نیز دیگر ادیان کے مقدسات اور انکی مذہبی علامات کی ہر قسم کی توہین اسلامی آداب اور طور طریقہ کے خلاف ہے۔مسلمین کو اس سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے اور جب تک دیگر ادیان کے پیروکار اسلام اور مسلمین کے خلاف جنگ پر نہ اتر آئیںانکے ساتھ گفتگو اور رواداری کا رویہ رکھا جائے: قل یا اهل الکتاب تعالوا الی کلمه سواء بیننا و بینکم الا نعبد الا الله و لا نشرک به شیئا (آل عمران/۶۴)
ہم علاقائی ممالک خصوصاً عراق اور شام میں تکفیری ٹولیوں کے جرائم کی مذمت کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس کا مقابلہ نہ ہونے کی صورت میں اسکے مزید پھیل جانے کو لیکر فکرمند ہیں۔انکے جرائم اس بات کا سبب بن رہے ہیں کہ قبلۂ اول اور فلسطین کی غصب شدہ سرزمین کے دفاع کا مسئلہ فراموشی کے سپرد کر دیا جائے۔ہم اپنے حق کی خواہاں فلسطینی عوام کے قیام کی حمایت کرتے ہیں جو انہوں نے بیت المقدس کوغاصب صہیونی رجیم کے چنگل سے آزاد کرانے کے لئے شروع کیا ہے۔ان کا یہ اقدام جائز دفاع کا بارز مصداق ہے اور اسلامی سرزمین سے غاصبانہ قبضہ کے خاتمہ کے لئے ایک شرعی فریضہ بھی ہے۔ہم پوری امت اسلامیہ کے لئے یہ دینی فرض سمجھتے ہیں کہ وہ تمام فلسطینی سرزمین کی آزادی کی حمایت کریں۔
چونکہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلانے اور انکی تکفیر کرنے میں دشمن کی چال کے علاوہ اسلامی تعلیمات سے بے بہرا ہونا بھی اس بات کا سبب بنتا ہے کہ کچھ لوگ تکفیریوں کے منحرف افکار و نظریات کی طرف راغب ہوجائیں،لہٰذا علماء اسلام کی ذمہ داری اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ فریب خوردہ مسلمان جوانوں کو آگاہ کرنے کے لئے اپنی پوری قوت و توانی کو بروئے کار لائیں اور انتہا پسندی اور تکفیری فتنوں کی خطرات سے انہیں باخبر کریں اور اپنی دلیل و منطق کے ذریعہ تکفیریت کی جڑوں خشک کر دیں۔
اور چونکہ دشمنان اسلام اپنی خفیہ ایجنسیوں کا سہارا لے کر انتہا پسند اور تکفیری تحریکوں کو "اسلاموفوبیا" (اسلام کو خوفناک دین کے طور پر پہچنوانے) اور دنیا میں اسلام کے نفوذ کا سد باب کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔اس لئے کانفرنس میں حاضر علماء عالمی سامراج کی چالوں کی طرف توجہ پر زور دیتے ہوئے،صراحت کے ساتھ اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ انتہا پسند اور تکفیری تحریکوں کا زندگی ساز دین،اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔لہٰذا با غیرت مسلمان جوانوں کے انقلابی اور کفر مخالف جذبات اور ان میں پوشیدہ صلاحیتوں کو تقویت پہونچائی جائے اور انہیں اپنے مسلمان بھائیوں کے قتل کی طرف راغب ہونے سے روکا جائے تاکہ اسلامی ممالک میں دشمنان اسلام کے مقاصد کو پورا ہونے سے روکا جا سکے۔
آیت "واعتصموا بحبل الله جمیعاً و لا تفرقوا" کی بنیاد پر ہم دوبارہ اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ اسلامی اتحاد کامیابی کا ایک ایسا راز ہے جس سے اسلامی خوابوں کو تعبیر مل سکتی ہے،اسلامی تمدن کی باز یابی ممکن ہے اور اسی کے ذریعہ اسلام کی زندگی ساز ثقافت کو عالمی پیمانہ پر عام کیا جا سکتا ہے۔تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ دشمنوں کے ذریعہ عام کی جانے والی آپسی دشمنی اور اختلاف و تفرقہ کا مقابلہ کریں اپنے دشمنوں کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ انتہا پسند اور تکفیری فتنوں کو استعمال کرکے اسلام کی شفاف تصویر کو مکدر کریں اور وہ اسلام کی بے رحم اور غیر انسانی تصویر کو عام کر کے اپنے ناپاک مقاصد کو حاصل کر سکیں۔
اسلامی تعلیمات اور اصول کو عام ہونے، مذہبی اختلافات سے پرھیز،نیز امت اسلامیہ کو آگاہ کرنے کی غرض سے تمام امکانات و وسائل کے استعمال کی ضرورت کے پیش نظر،تمام اہل قلم،صاحبان میڈیا،ریڈیو اور ٹیلیویژن چینلوں،پرنت اور الکٹرانک میڈیا سے وابستہ لوگوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اگر کوئی ہر قسم کے مذہبی عنوان سے ناجائز فائدہ اٹھائے یا ایک مذہب دوسرے مذہب کی اہانت کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اس سے مقابلہ کریں اور ہر اس اقدام کا بائیکاٹ کرکے اسے برملا کریں جس سے مسلمانوں کی آپسی قربت و ہمدلی کو ٹھیس پہونچتی ہو۔ساتھ ہی اسلام کے قسم خوردہ دشمنوں منجملہ امریکا اور اسرائیل کے بالمقابل امت مسلمہ کے مقدسات اور مفادات کے تحفظ کو اپنا نصب العین قرار دیں۔
امت اسلامیہ کی ہدایت و رہنمائی میں عالم اسلام کے علماء کے کردار اور حالیہ مشکلات سے نجات پانے کے لئے مناسب راہ حل تلاش کرنے کی ضرورت کے پیش نظر یہ تجویز پیش کی جاتی ہے کہ ایک "علماء اسلام کی عالمی اسمبلی" بنے تاکہ اس کے ذریعہ سے مشترکہ نظریات تک رسائی ممکن ہو اور آپسی غلط فہمیوں کا خاتمہ ہو سکے، اختلافی مسائل کی آگ کو بھڑکنے سے روکا جا سکے اور ساتھ ہی امت اسلامیہ اور عالم بشریت کو درپیش چنوتیوں نے نپٹنے کے لئے راہ ہموار ہو سکے۔
۳۔ اسلام کی زندگی ساز تعلیمات کی بنیاد پر جس نے بھی "شہادتین" کو زبان پر جاری کر لیا وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو گیا اور پھر اسکے اسکی جان،عزت،ناموس اور اسکا مال سبھی کچھ قابل اخترام ہے۔اگر کوئی شخص ظاہراً اسلام کو قبول کئے ہوئے ہے اسے اسلام اور ایمان سے کارج نہیں کیا جا سکتا۔جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے: ولا تقولو لمن الیکم السلام لست مومنا(نساء/۹۴)
۴۔چونکہ اسلامی نظریہ کی بنا پر خدا،پیغمبر (ص)،آخرت پر ایمان کے انکار یا پھر اجمالی طور پر اللہ کے نازل کردہ کسی حکم کے انکار کو "کفر" کہا جاتا ہے ۔لہٰذا اگر کچھ منحرف نظریات کے حامل افراد بے بنیاد بہانوں اور دلیلوں یا پھر کچھ خاص ایسے اعمال کی بنا پر جو اکثر علماء اسلام کے نقطۂ نظر سے صحیح ہیں،دیگر مسلمانوں کو کافر ٹھہرائیں تو یہ ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔اور چونکہ اس قسم کے منحرف نظریات مسلمین میں تفرقہ،دشمنان اسلام کی دخالت اور خدانخواستہ اسلامی امت پر انکے عزم و ارادہ کی بالادستی کا سبب بنتے ہیں،لہٰذا انہیں برملا کر کے اسلام مخالف افکار کے عنوان سے ان کا مقابلہ کیا جانا چاہئے۔خصوصا علما اور دینی مراجع کرام کا فرض ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اپنے فتوے دے کر تکفیریت سے مقابلہ کی راہ میں ایک اہم اور ٹھوس قدم اٹھائیں۔
۵۔ معاشرے میں تکفیریت کا رواج ایک ایسا فتنہ ہے جو اکثر مسلمین کی نگاہ میں منفور اور مذموم رہا ہے۔لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ پیغمبر اکرم کے قول کہ جس میں آپ فرماتے ہیں: "یمرقون من الدین کما یمرق السهم من الرمیۃ" اور مسلمین کی سیرت کی پیروی کی جائے۔ قرن اول میں خوارج کے دور میں پنپنے والے تکفیری نظریات سے لیکر بارہویں صدی اور اسکے بعد دور حاضر میں دوبارہ سر اٹھانے والے تکفیری افکار کا مقابلہ کرنے کے سلسلہ میں مسلمین کی سیرت ہمارے سامنے ہے۔ ،مسلمان ماضی کی طرح اہل قبلہ کی تکفیر کے خلاف آواز اٹھا کر نئے فتنہ کی بھڑکنے والی آگ کو مہار کریں تاکہ اسکے مہلک نتائج اسلامی مقدسات اور انکے مفادات کو نیست و نابود نہ کر دیں۔
۶۔اہل قبلہ کی جان،عزت،ناموس اور اسکے مال کی حرمت کے پیش نظر مسلمین کا قتل ناقابل بخشش گناہ ہے جو عذان اور لعنت الٰہی کا سبب بنتا ہے:"و من یقتل مومنا متعمدا فجزاؤ ه جهنم خالدا فیها و غضب الله علیه و لعنه و أعد له عذابا عظیما"۔
لہٰذا تکفیری نظریات کی بنا پر انجام پانے والے تمام اعمال جیسے:خود کش حملے، بم بلاسٹ،قاتلانہ حملہ،قتل،اہل قبلہ کو ہر قسم کی تکلیف پہونچانا،انکی ناموس اور انکے اموال کو مباح سمجھنا، انہیں مالی نقصان پہونچانا،اسلامی مقامات مقدسہ کو نقصان پہونچانا یا انہیں منہدم کرنا یہ سب شرعی طور پر حرام ہیں۔ان مجرمانہ اعمال کی تصاویر کو دکھانے کے لئے عام کرنا خود حرام مؤکد ہے کیوں کہ اس سے دین اسلام کی توہین ہوتی ہے اور اس کی خلاف حقیقت اور خونخوار تصویر سامنے آتی ہے۔تمام مسلمین پر واجب و لازم ہے کہ وہ دوسروں کو آگاہ کرنے اور تکفیریت کی فکری جڑوں کو (کہ جو بصد افسوس بعض ممالک کے تعلیمی نصاب میں بھی اپنی جگہ بنا چکی ہیں) سکھا دینے کے ذریعہ اس منحوس عنصر کا مقابلہ کریں۔فورا تکفیری عناصر کی مالی،فوجی اور سیاسی امداد ختم کریں۔خصوصا علاقائی قوموں سے مقابلہ کے لئے اپنے نوکروں کو بھیجنا بند کریں۔ان پر لازم ہے کہ وہ اسلامی ممالک کے آپسی تعلقات،گفتگو اور باہمی تعاون کو سنجیدگی سے قبول کریں اور مستقل طور سے عالم اسلام کے بدلتے حالات،اسکی خوبیوں، کمیوں،اسے درپیش خطروں اور چنوتیوں پر بھی کڑی نظر رکھیں
source : www.abna.ir