اردو
Saturday 28th of December 2024
0
نفر 0

کیاامام زمانه کے زنده هونے پر عقلی دلائل موجود هیں ؟

کیاامام زمانه کے زنده هونے پر عقلی دلائل موجود هیں ؟

کیاامام زمانه کے زنده هونے پر عقلی دلائل موجود هیں ؟
ایک مختصر

امام زمانه کا وجود اور اپ کی امامت در اصل امامت خاصه کے مباحث هیں جس کے لئے براه راست عقلی دلائل کا سھارا نھین لیا جاسکتا۔ بلکه امامت عامه میں عقلی دلیل استعمال کرنے کے بعد اور تمام زمانوں میں امام کی وجود کی ضرورت کے پیش نظر اسی طرح تاریخی روایات اور احادیث سے استناد کرتے هوئے یه نتیجه حاصل هوتا هے کے اس زمانے میں امام صرف حضرت مھدی هی هیں اور ان کے علاوه کوئی شخص امامت کا مصداق نھیں هے۔

هر زمانے میں ایک معصوم انسان اور حجت الهی کا هونا امامت عامه کی مختلف عقلی دلائل کے بنیاد پر هے مثلا نبوت اور امامت الله کی طرف سے ایک فیض معنوی هیں اور قاعده لطف کی بنیاد پر یه لطف همیشه رهنا چاهیے۔

جو روایت امام معصوم کے حضرت میھدی میں منحصر هونے پر دلالت کرتی هیں وه اتنی زیاده هیں که انکا انکار نھیں کیا جاسکتا اس حد تک کے اھل سنت کے بھت سے نام ور دانشمندوں نے یه قبول کیا هے اور اپنی کتابوں میں نقل کیا هے که:مھدی موعود امام حسن عسکری کے فرزند هیں اور ۲۵۵ ھجری کو سامراءمیں پیدا هوئے اور اس وقت غیبت میں هیں اور الله کے حکم سے ظاھر هوں گے۔

امام زمانه کی طولانی عمر کو قبول کرنے میں کوئی حیرت اور تعجب کی بات نھیں هے کیونکه اپ خدادای علم اور فطری طریقوں سے استفاده کرتے هوئے ایک لمبی مدت تک بغیر کسی بڑھاپے اور ضعیفی کے اس دنیا میں زندگی گزار رهیں هیں۔ اس کے علاوه اس میں کوئی تعجب نھین ھے کے الله اپنے حجت کو انصاف کی پشت پناهی نیز ستم اور ستم گاروں کی مخالفت کے لئے فطری اسباب و عوامل سے ماورا هو کر ذخیره کے طور پر باقی رکھے۔

تفصیلی جوابات

امام زمانه کی امامت اور اپ کا وجود امامت خاصه کی مباحث میں ھے۔ امامت خاصه سب کع براه راست دلیل عقلی سے نھیں سمجھا جاسکتا۔[1] بلکه دلیل عقلی هر زمانه میں صرف امامت عامه اور وجود امام کے لزوم کو ثابت کرتی هے۔

امامت عامه میں برھان عقلی اس بات پر هوتا هے کے ایک انسان معصوم اور حجت الهی کا وجود هونا چاهیے۔ اب اگر پھلے مقدمه میں روائی اور تاریخی دلائل کا اضافه کردیا جائے تو یه بات ثابت هو جائے گی اس زمانه میں صرف حضرت مھدی فیض الهی کا ذریعه هیں اور اس وقت با حیات هے۔[2]

استدلال کے دو ارکان

۱۔ تمام زمانوں میں امام کے وجود پر برھان عقلی:

الف: برھان لطف: نبوت و امامت الله کی جانب سے ایک فیض معنوی هے جو قاعده لطف کی بنیاد پر همیشه جاری رهنا چاهیے۔ قاعده لطف کا تقاضا هے اسلامی معاشره میں ایک ایسا امام هو جو معاشره کو حق کے محور پر چلائے اور اس کو خطاءمطلق سے بچاتا رهے۔

امام صادق کا یه جمله ممکن هے اسی بات کی طرف اشاره هو: الله عزوجل اس سے کھیں با عظمت اور بالاتر هے کے زمیں کو بغیر امام کے چھوڑ دے۔[3]

وجود امام غائب کئے الطاف کو اس طرح شمار کیا جاسکتا هے:

۱۔ الله کے دین کی کلی سطح پر حفاظت [4]

۲۔ آماده نفوس کی تربیت

۳۔ بقائے مذھب

۴۔ ایسے نمونے اور آئیڈیل کا وجود جو لوگوں کا مقتدا هو سکے۔

ب: برھان علت غائی: علم کلام میں ثابت هو تا هے کے خداوند عالم اپنے افعال سے ایک ھدف اور غایت کو مد نظر رکھتا هے اور چوں که خدا کمال مطلق هے اور اس میں نقص کا کوئی گذر نھیں هے لھذا افعال الهی کے غایت مخلوقات کی طرف پلٹتی هیں اور وجود انسان کا ھدف انسان کامل هے یعنی انسان وه درخت هے جس کا پھل انسان کامل هے۔

ج: برھان امکان اشرف: فلسفه میں قاعده امکان اشرف کے ناقم کا ایک قاعده هے جس کا معنی یه هے که ممکن اشرف کو مراتب کے لحاظ سے ممکن اخص پر مقدم هو نا چاھیے ۔۔۔ [5] کائنات میں انسان اشرف المخلوقات هے اور یه محال هے کے وجود، حیات، علم، قدرت، جمال ایک عام انسان تک پھچ جائے اور یه کمالات اس انسان کامل تکل تک نه پھچے جو حجت الله هے۔

د: برھان مظھر جامع: مقام ظھور میں الله کی هویت مطلقه پر احکام وحدت غالب رھتے هیں اور وحدت ذاتی میں اسماءتفصیلی کی کوئی گنجایش نھیں هے۔ دوسرے طرف مظاھر تفصیلی عالم خارج میں ظاهر هوتے هیں اور ان میں وحدت پر احکام کثرت غالب هوتے هیں یھاں الله کا فرمان اعتدالی صورت کا متقاضی هوتا هے جس میں وحدت ذاتی یا کثرت امکانی ایک دوسرے پر غلبه نه پائیں تاکه اسماء تفصیلیه اور وحدت حقیقیه کے اعتبار سے حق کے لئے ایک مظھر هو اور وه تمام انسان کامل کی صورت اعتدال هے[6]

ھم یھاں پر صرف اتنے هی پر اکتفا کرتے هیں اور قاری کو مفصل کتابوں پر کی طرف رجوع دیتے هیں[7] ۔

۲: امام زمانه علیه السلام کی ولادت اور حیات کے سلسله میں تاریخی اور روائی دلائل اچھے خاصه هیں نمونه کے طور پر کوچھ تاریخی اسناد پیش کی جارهی هے:

۱۔ اھل سنت کے بھت سے نامور دانشوروں نے اسے قبول کیا هے [8] اور اپنے کتابوں میں ذکر کیا هے که مھدی موعود امام حسن عسکری علیه السلام کے فرزند هیں اور ۲۵۵ ھ کو سامراءمیں پیدا هوئے اور غیبت میں زندگی گذار رهے هیں اور الله کے حکم سے ظھور فرمائیں گے۔[9]

۲: امام حسن عسکری نے اپنے بیٹے امام مھدی کی ولادت سے پھلے هی ان کی ولادت کی خبر دی تھی مثلا ان کی پھوپھی حکیمه خاتون کھتی هیں کے ۱۵ شعبان کی شب میں میرا بیتا مھدی نرگس خاتون کے بطن سے پیدا هوگا[10]۔

احمد بن اسحاق کھتے هیں پینے امام حسن عسکری کو کھتے سنا کے اس الله کا شکروسپاس جس نے مجھے اس دنیا سے نھیں اٹھایا یھان تک کے میرے جانشین مھدی موعود کو مجھے پھچنوادیا۔ وه جسمانی، اخلاقی ا ور کرداری خصوصیات کے اعتبار سے سب دے زیاده رسول سے مشابه هے۔ خدا ایک مدت تک اسے غیبت میں رکھے گا پھر وه ظھور کرے گا اور دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیگا [11] نیز حضرت عسکری نے اپنے فرزند کی ولادت کے بعد اپنے خواص اور قریبیوں کوامام مھدی کی ولادت سے آگاه فرمایا۔

محمد بن علی بن حمزه کھتے هیں کے میں نے امام عسکری کوکھتے سنا که بندوں پر خدا کی حجت اور میرا جانشین اور امام ۱۵ شعبان ۲۵۵ ھ کو طوع فجر کے وقت پیدا هوا[12]۔

احمد بن حسن بن اسحاق قمی کھتے هیں جب امام مھدی کی ولادت هوئی تو امام عسکری کی طرف سے ایک خط مجھے ملا جس میں اپ نے لکھا تھا کے میرا یھان ایک فرزند ی ولادت هوئی هے، اس موضوع کو راز میں رکھو، کیونکه اس کو میں دوستوں اور قریبیوں کے علاوه کسی کے اوپر ظاهر نھیں کروں گا[13]

ابراهیم ابن ادریس کهتے هیں که امام عسکری نے ایک گوسفند میرے پاس بھیجی اور فرمایا که اس کا میرے بیٹے مهدی کی ولادت کی مناسبت سے عقیقه کرو اور خود بھی کھاؤ اور اپنے خانوادے کو بھی نوش جان کراؤ۔[14]

۳۔ امام مهدی علیه السلام کی ولادت سے پهلے اس کی بشارت دینے کے علاوه امام عسکری علیه السلام نے ولادت کے بعد اپنے خواص کو خبر دی که مهدی موعود کی ولادت هوچکی هے اس کے علاوه ایک اور قدم اٹھایا که شیعوں کے ایمان و یقین میں اضافه کے لئے بعض شیعوں کو ان کی زیارت کرائی۔

احمد ابن اسحاق کهتے هیں: امام عسکری علیه السلام نے ایک تین ساله بچے کو مجھے دکھایا اور فرمایا که اے احمد اگر تو ائمه کے نزدیک محترم نه هوتے تو میں اپنے بچے کو تمهیں نه دکھاتا۔ جان لو که یه بچه رسول الله صصص کا هم نام اور هم کنیت هے۔ اور یه وهی هے جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دےگا۔[15]

معاویه ابن حکیم، محمد ابن ایوب اور محمد ابن عثمان ابن سعید عمری کهتے هیں : هم چالیس افراد کے ایک گروه کی صورت میں امام عسکری علیه السلام کے گھر میں جمع تھے۔ امام علیه السلام نے اپنے فرزند کی همیں زیارت کرائی اور فرمایا: یه تم سب کا امام اور میرا جنشین هے۔[16]

علی ابن بلال، احمد ابن هلال، محمد ابن معاویه ابن حکیم اور حسن ابن ایوب کهتے هیں: هم کچھ لوگ امام حسن عسکری علیه السلام کے گھر پر جمع تھے اور هم نے امام سے آپ کے جانشین کے بارے میں سوال کیا کچھ دیر بعد امام علیه السلام نے همیں ایک بچے کو دکھایا اور فرمایا: میرے بعد یه تمهارا امام هے۔[17]

عمر اهوازی کهتے هیں: امام حسن عسکری علیه السلام نے اپنے بیٹے کو مجھے دکھایا اور فرمایا: میرے بعد یه میرا بیٹا تمهارا امام هے۔[18]

ابراهیم ابن محمد کهتے هیں: امام عسکری علیه السلام کے یهاں میں نے ایک خوبصوت بچے کو دیکھا میں نے امام سے پوچھا: یابن رسول الله! یه بچے کون هے؟ آپ نے فرمایا: یه میرا بچه هے، یه میرا جانشین هے۔[19]

یعقوب ابن منفوس کهتے هیں: میں امام عسکری علیه السلام کی خدمت میں حاضر هوا اور امام سے بعد کے امام اور صاحب الامر کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا: پرده هٹاؤ میں پرده هٹایا تو ایک پانچ ساله بچے کو دیکھا جو هماری طرف آرها تھا وه بچه آیا اور اما عسکری کے زانو پر بیٹھ گیا۔ امام نے فرمایا: یه آپ کا امام هے۔[20]

۴۔ امام عسکری علیه السلام کے بشارت دینے کے بعد اور خواص اور معتمد افراد کو امام مهدی کی زیارت کرانے کے بعد اب خواص کی ذمه داری هے که وه اس سلسله میں اقدام کریں اور دوسرے شیعوں کو اس کی اطلاع دیں تاکه وه شک و سرگردانی سے نجات پاسکیں۔

حکیمه خاتون، محمد ابن علی ابن موسی الرضا علیهم السلام کی دختر نیک اختر، عثمان ابن سعید عمری، حسن ابن حسین علوی، عبد الله ابن عباس علوی، حسن ابن منذر، حمزه ابن ابی الفتح، محمد ابن عثمان ابن سعید عمری، معاویه ابن حکیم، محمد ابن معاویه ابن حکیم، محمد ابن ایوب ابن نوح، حسن ابن ایوب ابن نوح، علی ابن بلال، احمد ابن بلال، محمد ابن اسماعیل ابن موسی ابن جعفر، یعقوب ابن منفوس، عمر اهوازی، خادم فارسی، ابو علی ابن مطهر، ابی نصر طریف خادم، کامل ابن ابراهیم، احمد ابن اسحاق، عبد الله مستوری، عبد الله ابن جعفر حمیری، علی ابن ابراهیم مهزیار، ابو غانم خادم نے یه کوشش کی که امام مهدی علیه السلام کی ولادت کی خبر کو دیگر شیعوں تک پهنچا سکیں۔

حکیمه خاتون سے منقول ایک روایت پر توجه فرمائیں: امام حسن عسکری علیه السلام نے ایک شخص کو میرے پاس بھیجا که آج (یعنی شب نهمه شعبان کو) افطار کے لئے میرے پاس آؤ، چونکه آج کی شب الله اپنی حجت کو آشکار کرے گا۔ میں نے پوچھا که یه مولود کس سے هے؟ فرمایا نرجس سے۔ میں نے عرض کی که نرجس میں تو آثار حمل نهیں هیں۔ کها که بات یهی هے جو میں نے کهی۔ میں بیٹھی هی تھی که نرجس آئیں اور میرے جوتے کو میرے پیروں سے اتارا اور کها: میری ملکه آپ کا کیا حال هے؟ میں نے کها تم میری اور اس گھر کی ملکه هو وه یه بات سن کر حیرت زده هوئیں اور ناراض هوکر بولیں آپ یه کیا بات کهه رهی هیں! میں نے کها الله اس شب میں تمهیں ایسا بیٹا عنایت کرے گا جو دنیا و آخرت کا امام هوگا۔ نرجس میری بات سے شرماگئیں۔ پھر میں نے افطار کے بعد نماز عشاء پڑھی اور بستر پر چلی گئی۔ پھر آدھی رات کے بعد اٹھی اور نماز شب پڑھی، حجرے سے باهر گئی تاکه طلوع فجر کو دیکھ سکوں میں نے دیکھا که فجر اول طلوع هوچکی هے اور نرجس ابھی سوئی هوئی هیں۔ اس لمحه میرے ذهن میں یه سوال آیا که حجت خدا کی ولادت کیوں نهیں هوئی که اچانک اما عسکری نے برابر کے حجرے سے مجھے آواز دی پھوپھی جان جلدی نه کیجے که وقت موعد قریب هے۔ میں بیٹھ گئی اور قرآن پڑھنے لگی، میں قرآن پڑھ رهی تھی که اچانک نرجس خاتون پریشانی کے عالم میں جاگیں میں جلدی سے ان کے پاس گئی اور پوچھا کسی چیز کا احساس هورها هے؟ کها: هاں۔ میں نے کها الله کا ذکر زبان پر جاری رکھو، یه وهی هے جس کی خبر میں نے تمهیں رات کے آغاز میں دی تھی، پریشان نه هو اپنے دل کو مطمئن رکھو۔ اسی وقت ایک نورانی پرده میرے اور ان کے درمیان حائل هوگیا۔ اچانک میں نے دیکھا که بچے کی ولادت هوچکی هے۔ میں جب نرجس سے کپڑا هٹایا تو دیکھا که بچه سجدے کی حالت میں هےاور ذکر خدا میں مصروف هے۔ اسی وقت اما عسکری علیه السلام کها که پھوپھی جان! میرے بیٹے کو میرے پاس لے آؤنوزاد کو آپ کی خدمت میں لے گئی۔ حضرت نے اسے اپنی آغوش میں لیا اور بچے هاتھ، آنکھ اور جوڑوں پر هاتھ پھیرا اور دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کهی اور فرمایا که اے بیٹا کچھ بولو۔ نوزاد نے بولنا شروع کیا اور شهادتین کو زبان پر جاری کیا پھر ترتیب کے ساتھ امام علی اور دیگر ائمه پر بترتیب درود بھیجی یهاں تک که اپنے پدر بزرگوار پر درود بھیجی۔ پھر امام عسکری علیه السلام نے مجھ سے کها: بچے کو اس کی ماں کے پاس لے جائیں تاکه ان کو سلام کرے اور پھر میرے پاس لے آئیں میں بچے کو ماں کے پاس لے گئی اس نے سلام کیا اور میں بچے کو واپس امام کے پاس لے آئی۔ امام نے فرمایا که ساتویں دن همارے پاس آئیے گا، میں ساتویں دن پهنچی تو امام نے فرمایا میرے بیٹے کو میرے پاس لے آئیں۔ بچے نے پهلے دن کی طرح شهادتین اور ائمه پر درود کو زبان پر جاری کیا۔ پھر اس آیت کی تلاوت کی: [و نرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجعلهم ائمۃ و نجعلهم الوارثین]۔ حکیمه خاتون کهتی هیں که اس کے بعد ایک دن میں آپ کی خدمت میں پهنچی میں نے پرده هٹایا تو امام مهدی علیه السلام کو موجود نه پایا۔ میں نے عرض کی: آپ پر فدا هوجاؤں یه بتائیں که امام مهدی کهاں هیں؟ آپ نے فرمایا: پھوپھی جان! اس کی حضرت موسی علیه السلام کی طرح پوشیده طور پر حفاظت هوگی۔[21]

۵۔ امام عسکری علیه السلام کے بعد خود امام مهدی علیه السلام نے کرامات اور سچے شواهد (معجزے یا شبیه معجزے) کے ذریعه اپنی امامت امام عسکری علیه السلام کی شیعوں کے لئے ظاهر کیا اور ان کے اوپر حجت تمام کی۔

وکالت کا خفیه اداره جو امام صادق علیه السلام کے زمانے سے اسی زمانے کے لئے شروع کیا گیا تھا، غیبت صغری میں اس کا اسب سے اهم کام یهی تھا که شیعوں کے شک و حیرت کو برطرف کرے اور ان کو امام غائب اور نواب اربعه کی نیابت کے بارے میں ان کو مطمئن کرے۔ امام کے وکیل اور نائبین نے سچے شواهد لاکر اور ناحیه مقدسه سے حاصل کی هوئی کرامات اور علوم عالی کے ذریعه اس سلسله میں اقدام کیا۔

کرامات اور شواهد صدق کبھی براه راست امام علیه السلام کے ذریعه اور کبھی ان کے نائبین کے ذریعه بیان هوتی تھیں، تاکه شیعه حضرات امام مهدی علیه السلام پر ایمان لانے کے علاوه نواب اربعه کی نیابت کے سلسله میں بھی مطمئن هوجائیں کرامات اور شواهد صدق زیاده تر پهلے نائب امام زمانه علیه السلام حضرت عثمان ابن سعید عمری کے ذریعه انجام پائے۔ کیونکه اس زمانے میں شیعه حضرات حیرت و سرگردانی میں تھے اور امام مهدی کے وجود کو اچھی طرح محسوس نهیں کرپائے تھے۔

سید ابن طاؤس لکھتے هیں: امام زمانه علیه السلام کی آپ کے والد کے بهت سے اصحاب نے زیارت کی هے اور ان سے بهت سی روایتیں اور احکام شرعی نقل کئے هیں۔ اس کے علاوه امام علیه السلام کے بهت سے وکیل تھے جن کا نام، نسب اور وطن معلوم تھا اور انھوں نے ایسے معجزات، کرامات، اور احکام شرعی کے جوابات اور بهت سی غیبی روایتوں کو نقل کیا هے جس کی امام علیه السلام نے اپنے جد امجد حضرت رسول الله صصص سے روایت کی هے۔[22]

یهاں پر صرف چند نمونے بیان کیے جارهے هیں:

۱۔ سعد ابن عبد الله اشعری قمی کی روایت: وه کهتے هیں: حسن ابن نضر جو قم کے شیعوں میں ایک ممتاز شخصیت کے حامل تھے وه امام عسکری علیه السلام کے بعد حیران و پریشان تھے۔ وه، ابو صدام اور کچھ اور لوگوں نے طے کیا که بعد کے امام کے بارے میں تحقیق کریں۔ حسن ابن نضر ابو صدام کے پاس آیا اور کها که میں اس سال حض کے لئے جانا چاهتا هوں ابو صدام نے کها که اس سال نه جاؤ۔ لیکن حسن ابن نضر نے کها که نهیں، میں نے ایک خواب دیکھا هے اور فکرمند هوں لهذا میرا جانا ضروری هے۔ چلنے سے پهلے احمد ابن علی ابن حماد کو امام علیه السلام سے متعلق اموال کے بارے میںوصیت کردی که اس کی حفاظت کرے یهاں تک امام عسکری علیه السلام کا جانشین معین هوجائے۔ یه کهه کر بغداد چلے گئے وهاں ناحیه مقدس کی طرف سے ایک توقیع انھیں ملی۔ اور اس کے ذریعه انھیں امام مهدی کی امامت اور عثمان ابن سعید عمری کی وکالت کے سلسله میں اطمینان هوگیا۔

۲۔ محمد ابن ابراهیم ابن مهزیار: وه کهتے هیں: امام عسکری علیه السلام کی رحلت کے بعد ان کی جانشینی کے بارے میں شک میں پڑگیا۔ میرے والد آپ کے وکیل تھے اور کافی اموال ان کے پاس تھے میرے والد نے اموال کو اٹھایا اور مجھے بلایا اور چل پڑے۔ راسته میں میرے والد بیمار هوگئے اور اموال کے بارے میں مجھ سے وصیت کی اور کها الله سے ڈرنا اور ان اموال کو اس کے مالک تک پهنچانا، جو بھی ان نشانیوں کو بتلائے اموال کو اس کے سپرد کردینا۔ اور انھوں نے یه کهه کر رحلت کی۔

چند دن تک عراق میں رها پھر عثمان ابن سعید کی طرف سے ایک خط مجھے ملا جس میں اموال کی تمام علامتیں ذکر تھیں۔ وه نشانیاں جس کے بارے میں والد اور میرے علاوه کوئی نهیں جانتا تھا۔[23]

محمد ابن ابراهیم ابن مهزیار اس کرامت اور شاهد کے ذریعه امام مهدی کی امامت اور عثمان ابن سعید کی نیابت کے سلسله میں مطمئن هوگئے۔

۳۔ احمد دینوری سراج کی روایت: وه کهتے هیں: امام حسن عسکری علیه السلام کی رحلت کے دو سال بعد حج کے لئے میں اردبیل سے چلا اور دینور پهنچ گیا لوگ اما عسکری علیه السلام کے نائب کے سلسله میں حیران و پریشان تھے دینور کے لوگ میرے آنے سے خوش هوئے وهاں کے شیعوں نے ۱۳هزار سهم امام علیه السلام مجھے دیا که میں سامرا جاکر امام کے جانشین کے سپرد کردوں۔ میں نے کها که امام علیه السلام کا جانشین میرے لئے بھی واضح نهیں هوا هے۔ کهنے لگے: همیں آپ پر اعتبار هے جب بھی آپ کو جانشین ملے آپ ان کے سپرد کردیجے گا۔ میں ۱۳هزار دینار لئے اور وهاں سے چلا آیا۔ کرمانشاه میں احمد ابن حسن ابن حسن سے ملاقات هوئی اس نے بھی ایک هزار درهم اور کچھ تھیلے کپڑے مجھے دئے که انھیں ناحیه مقدسه تک پهنچا دوں۔ بغداد میں نائب امام علیه السلام کی تلاش میں تھا۔ مجھے بتایا گیا که ۳لوگ نیابت کے مدعی هیں۔ ان میں ایک کا نام باقطانی تھا میں اس کے پاس گیا اور اپنے مدعی پو اس سے شاهد اور چاها لیکن اس کے پاس کوئی ایسی چیز نهیں تھی جو مجھے مطمئن کرتی۔ پھر میں اسحاق احمر نامی ایک اور شخص کے پاس گیا وه بھی میرے لئے برحق ثابت نه هوسکا۔ عثمان ابن سعید عمری نام کے تیسرے فرد کے پاس گیا، احوال پرسی کے بعد اس سے کها که لوگوں کے کچھ اموال میرے پاس هیں اور انھیں امام عسکری علیه السلام کے نائب تک پهنچانا ضروری هے۔ بڑا فکرمند هوں اور سمجھ میں نهیں آتا که کیا کروں۔ اس نے کها که سامرا جاؤ وهاں ابن الرضا (امام عسکری) کے گھر جاؤ وهاں تمهیں امام کا وکیل مل جائے گا۔ میں سامرا گیا اور امام کے گھر میں امام کے وکیل کے بارے میں پوچھا۔ دربان نے کها ذرا انتظار کرو ابھی باهر آتے هوں گے کچھ لمحوں بعد ایک شخص آیا اس نے میرا هاتھ تھاما اور گھر کے اندر لے گیا احوال پرسی کے بعد میں نے اس سے کها: جبل کی طرف سے میں کچھ اموال لیکر آیا هوں اور دلیل و شاهد کی تلاش میں هوں۔ میں مجبور هوں که جس شخص سے نیابت کے سلسله میں دلیل حاصل هو اسی کو یه اموال دوں۔ اس وقت میرے لئے کھانا لایا گیا اس نے کها که کھانا کھالو اور جچھ دیر آرام کرلو پھر تمهارا کام بھی دیکھ لیا جائےگا۔ کچھ رات گزرنے کے بعد اس شخص نے مجھے ایک خط لاکر دیا جس میں لکھا تھا که: احمد ابن محمد دینوری آیا هوا هے اور اتنی مقدار میں رقم، تھیلی اور تھیلے لایا هے اور تھیلی میں اتنی رقم هے اور اس کی تمام خصوصیتیں بیان کردی تھیں۔ مثلا لکھا تھا که: فلاں زره ساز کے بیٹے کی تھیلی میں اتنی رقم هے۔ کرمان سے ایک تھیلی فلاں شخص کی هے اور فلاں تھیلا احمد ابن ادریس مادرانی کا هے جس کا بھائی اون فروش هے وغیره۔ اس خط کے ذریعه میرا شک و شبهه ختم هوگیا اور اطمینان هوگیا که عثمان ابن سعید هی امام کے نائب هیں۔ امام علیه السلام نے اس خط میں مجھے حکم دیا تھا که ان اموال کو بغداد لے جاؤں اور اسی کے سپرد کردوں جس سے ملاقات هوئی تھی[24]۔

۴۔ محمد ابن اسود کی روایت: وه کهتے هیں که غیبت صغری کے آغاز میں میں ایک بڑھیا نے ایک کپڑا مجھے دیا اور کها که اسے ناحیه مقدسه تک پهنچادوں میں اس کو دوسرے بهے سے کپڑوں کے ساتھ لایا۔ جب بغداد پهنچا تو عثمان ابن سعید نے مجھ سے کها که تمام سامان کو محمد ابن عباس قمی کو دے دو میں نے سب انھیں دے دیا لیکن بڑھیا کے کپڑے کو نه دیا تو بعد میں عثمان ابن سعید نے امام علیه السلام کا یه پیغام پهنچایا که بڑھیا کے کپڑے کو بھی اسی کے سپرد کروں[25]۔

۵۔ اسحاق ابن یعقوب کی روایت: وه کهتے هیں که عثمان ابن سعید کو میں نے کهتے سنا که عراق کا ایک شخص میرے پاس آیا اور امام علیه السلام کے لئے کچھ سامان لایا تھا آپ نے اسے واپس کردیا اور فرمایا انے بھتیجه کے چارسو درهم کو اس سے ادا کردو۔ وه شخص مبهوت حیرت زده ره یا اور اپنے مال کا حساب کیا تو نتیجه نکلا که اس کے بھتیجه کے چارسو درهم اس پر نکلتے هیں۔ اس اسے واپس کیا اور بقیه مال کو امام عع کی خدمت میں پیش کیا تو امام علیه السلام نے قبول کرلیا[26]۔

۶۔ محمد ابن علی ابن شاذان کی روایت: کهتے هیں که لوگوں کو کچھ مال میرے پاس جمع هوگیا تھا که میں اسے امام علیه السلام تک پهنچاؤں میں نے ملاحظه کیا ۲۰ کم پانچ سو درهم هیں۔ میں پیس درهم اپنی طرف سے بڑھاکر نائب امام عثمان ابن سعید تک پهنچادئے۔ خط میں بھی میں نے اس بارے میں کچھ نهیں لکھا تھا۔ انھوں نے جواب میں لکھا: پانچ سو درهم وصول هوئے اس میں سے بیش درهم آپ کے تھے[27]۔

ان روایتوں کے ذریعه غیبت صغری کی شروع میں شواهد صدق اور کرامات کا ظهور هوا اور امام عسکری علیه السلام کے شیعه امام مهدی علیه السلام کی امامت اور عثمانابن سعید کی نیابت سے واقف هوگئے۔ امام علیه السلام کی کوشش اور وکالت کے خفیه سلسله کے ذریعه ولادت کے مخفی هونے اور غیبت کے پیش آنے کے سبب شیعوں کو جو حیرت و سرگردانی درپیش تھی وه غیبت صغری کے شروع میں مکمل طور سے زائل هوگئی۔

امام مهدی علیه السلام کے کرامات اور آپ کی غیبی علوم کے ذریعه شیعه دو باتوں تک پهنچ گئے: ایک یه که انھیں پته چل گیا که رسول الله صصص کے زمانے اور علی علیه السلام سے شروع هونے والی امامت کا سلسله اب تک صحیح چلا هے اور امام عسکری علیه السلام کے بعد امامت ان کے فرزند کی طرف منتقل هوگئی هے اور اس غیبت صغری کے دور میں امام مهدی غیبت میں ره کر شیعوں کی رهنمائی کررهے هیں۔

دوسرے یه که وکالت کا وه خفیه سلسله جو ائمه کے زمانے سے فعال تھا وه اب بھی فعال هے اور عثمان ابن سعید عمری امام علیه السلام کی طرف سے اس عظیم ادارے کے سربراه هیں۔ لهذا شیعه امام علیه السلام کی امامت تک بھی پهنچ گئے اور عثمان ابن سعید کی نیابت سے بھی مطمئی هوگئے۔

عثمان ابن سعید کے انتقال کے بعد امام مهدی علیه السلام کے حکم سے آپ کے بیٹے محمد ابن عثمان نے اس ذمه داری سنبھالا۔ اس موقع پر کچھ شیعوں امام زمانه کے وجود میں نهیں بکه محمد ابن عثمان کی نیابت میں شک هوا۔ تو امام علیه السلام نے کچھ کرامات اور شواهد صدق کے ذریعه شیعوں کو محمد ابن عثمان ابن سعید کی نیابت کے بارے میں مطمئن کیا اور صرف لچھ لوگوں نے هواپرستی اور اقتدار کی وجه سے محمد ابن عثمان کی مخالف کی۔ ان لوگوں نے نیابت کا جھوٹا دعوی کیا اور محمد ابن عثمان نے کرامات اور سچے شواهد کے ذریعه ان کے دعوے کو باطل کیا۔ اور شیعوں کو محمد ابن عثمان کی نیابت کا اور زیاده یقین هوگیا[28]۔ پھر حسین ابن روح کے زمانه نیابت میں بھی کچھ خواص نے ان کی مخالفت کی لیکن کرامات دیکھکر مخالفت سے باز آگئے اور معذرت کرلی[29]۔

حسین ابن روح کے بعد ابولحسن ابن علی ابن محمد سمری تک نیابت پهنچی اور غیبت صغری کی آخری توقیع کو کرامت شمار کیا جاتا هے۔ امام مهدی علیه السلام نے ۹شعبان ۳۲۹ھ کو ایک اور توقیع صادر فرمائی اور ابوالحسن علی ابن محمد سمری کو بتایا که: [تم چھ روز بعد دنیا سے چلے جاؤگے وکالت کے مسائل کو سمیٹ کر لوگوں کے مال کو ان تک واپس پلٹادو اس کے بعد نیابت خاصه کے سلسله ختم هے] راوی کهتا هے که میں ابوالحسن علی ابن محمد سمری کے پاس کے پاس گیا تو انھوں نے یه توقیع مجھے دکھائی پھر میں متعلقه دن ان کے گھر گیا تو دیکھا که وه جانکنی کے علم میں هیں[30]۔

یه خط شیعه کی حقانیت اور امام زمانه علیه السلام کے وجود پر ایک اور دلیل هے۔

امام زمانه علیه السلام کے طولانی عمر

طول عمر کا مسئله، زندگی کے مسئله هی کی ایک فرع هے۔ زندگی کی حقیقت انسان کے لئے مجهول هے اور ممکن هے انسان کبھی بھی اس حقیقت تک نه پهنچ سکے۔ بڑھاپے کو اگر هم زندگی کے اوپر عارض مانیں یا اس کو ایک فطری قانون سمجھیں جو زنده جسم پر عارض هوتا هے اور زمانے کے ساتھ ساتھ اسے فرسودگی اور موت کے منھ میں ڈھکیل دیتا هے۔ اس کا لازمه یه نهیں هے که یه حقیقت، لچک اور تاخیر کو قبول نه کرتی هو۔ یه وجه هے که انسانی علوم نے بڑھاپے کے علاج کے لئے خاص قدم اٹھائے هیں۔ انیسویں صدی کے اواخر میں علمی پیشرفت کے سببب لمبی عمر کی امیدیں بڑھی هیں اور ممکن هے که مستقبل قریب میں یه شیریں خواب شرمنده تعبیر هوجائے۔ امام مهدی علیه السلام کی طولانی عمر کے بارے میں کوئی حیرت کی بات نهیں بچتی هے اور علمی و نظری اعتبار سے اس میں کوئی شک نهیں هے۔ حضرت حجت خدادادی علم اور فطری اور علمی طریقوں سے دنیا میں طولانی مدت تک زنده ره سکتے هیں که ان میں بڑھاپے کے آثار رونما نه هوں۔

دوسری طرف اگر هم عمر کے اختصار کو ایک عمومی یا غالبی قانون مانیں تو هر چیز میں استثناء بھی اس دنیا کی فطرت کا جز هے جس کا انکار نهیں کیا جاسکتا۔ جیسا که فطرت کے سائے میں درخت اور دیگر جاندار چیزیں لمبی عمر اور پرانی تاریخ رکھتے هیں۔ تو کیا پریشانی هے که هم دنیا هی میں ایک انسان کو الله کی حجت کے حفاطت کے لئے عدالت کے نفاذ اور ظلم و ستم کے اختتام کے عنوان سے مستثنی مان لیں! اور اس کو هم فطرت اور ظاهری اسباب و علل سے بالاتر سمجھ لیں؟ که اس کے سامنے فطری قوانین میں لچک هے اور وه ان سے بالاتر هے۔ یه بات ممکن هے اگرچه عرف و عادت کے خلاف هے۔ علامه طباطبائی کے بقول [امام زمانه علیه السلام کی زندگی کو خرق عادت کے طور پر مانا جاسکتا هے۔ البته خرق عادت اور محال الگ الگ باتیں هیں اور علمی طریقوں سے خرق عادت کی نفی نهیں کی جاسکتی، اس لئے که کسی طرح بھی یه دعوی نهیں کیا جاسکتا که دنیا میں صرف وهی اسباب و علل کارفرما جنھیں هم نے دیکھا هے اور جنھیں هم پهچانتے هیں اور وه اسباب و علل موجود هی نهیں هیں جن کو هم دیکھا نهیں هے یا هم ان سے واقف نهیں هیں۔ لهذا ممکن هے که کسی شخص میں ایسے اسباب و عوامل پائے جائیں جو اس کے لئے طولانی عمر یا هزار بلکه کئی هزار سال کی عمر فراهم کردیں۔[31]

دوسری جانب تاریخ میں بهت سے لمبی عمر پانے والے پائے گئے هیں جن میں سب سے زیاده مسلم الثبوت جناب نوح علیه السلام هیں۔ قرآن تصریح کرتا هے که وه ۹۵۰سال تو صرف پیغمبر تھے[32]۔ یقینا ان کی مکمل عمر اس سے کهیں زیاده هوگی حضرت خضر علیه السلام کی عمر بھی اسی کا ایک مصداق هے[33]و[34]۔ اس بنیاد پر امام زمانه علیه السلام کی طالانی عمر کو مانا جاسکتا هے اور عقلی اعتبار سے کوئی بعید نهیں هے


[1] چوں کے برھان عقلی اور دلیل عقلی کسی فرد کی معرف نھیں هو سکتی اور [جزءی نه کاسب هے نه مکتسب] کامطلب بھی یھی هے ۔

[2] رجوع کریں : نھج الولایه،حسن زاد عاملی، ص ۷و ۸

[3] بصاءر الدرجات، ص ۴۸۵، باب ۱۰ ح ۳

[4] کشف القناع، شریف العلماء، ص ۱۴۸

[5] نھایۃ الحکمه، ص ۳۱۹ تا ۳۲۰

[6] ملاحظه فرماءیں: تمھید القواعد، ص ۱۷۲، تحریر تمھید القواعد، آیت الله جوادی، ص ۵۴۸ تا ۵۵۵

[7] موعود شناسی، علی اصغر رضوانی، ص ۲۶۷تا ۲۸۳ کا مطالعه مفید هے۔

[8] کچھ محققین نے ایسے ۱۰۰ سے زیاده اھل سنت دانشوروں کا ذکر کیا هے جنھوں نے امام مھدی کی ولادت کا تذکره کیا هے۔

[9] محمد بن طلحه شافعی نے [مطالب السؤل] میں، ابن صباغ مالکی نے [الفصول المھمه] میں، ابن حجر شافعی نے [الصواعق المحرقه] میں اور ابن خلکان نے العیان میں۔

[10] منتخب الثر، ص ۳۹۸ تا ۳۹۹

[11] بحار، ج ۵۱ ص ۱۶۱؛ ایضا، ص ۳۹۷

[12] ایضا، ۳۹۷

[13] اثبات الھدات، ج ۶ ص ۴۳۶، داد گستر جھان ۱۰۳

[14] بحار، ج۵۲، ص۲۲

[15] ایضا ص۲۳و ۲۴

[16] ینابیع المودۃ، ص۴۶۰؛ بحار ج۵۲، ص۲۶

[17] اثبات الهداۃ، ج۶، ص۳۱۱، دادگستر جهان، ص۱۰۷

[18] ینابیع المودۃ ص۴۶

[19] داد گستر جهان، ص۱۰۷

[20] بحار، ج۵۲، ص۲۵

[21] ینابیع المودۃ، ص۴۴۹ و ۴۵۰

[22] الطرائف فی معرفۃ مذهب الطوائف، ج۱، ص۱۸۳و ۱۸۴؛ زندگانی نواب خاص امام زمان (عج) ص۹۳ و ۹۴

[23] ایضا، ص۵۱۸، ح۵؛ رجال کشی، ج۲، ص۸۱۳

[24] بحار، ج۵۱، ص۳۰۰و ۳۰۲

[25] ایضا ص۳۳۵

[26] ایضا ص۳۲۶

[27] کلینی، کافی، ج۱، ص۴۲۳و ۵۲۴

[28] دیکھئے: بحار، ج۵۱، ص۳۱۶و ۳۳۶؛ کمال الدین، ص۳۹۸

[29] دیکھئے: تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم (عج) جاسم حسینی، ص۱۹۷

[30] کمال الدین، ج۲، ص۳۸۵

[31] شیعه در اسلام، علامه طباطبائی، ص۱۵۱

[32] عنکبوت/۱۴

[33] کمال الدین، ج۲، ص۳۸۵

[34] مجله حوزه، شماره ۷۱و ۷۲، خاص نمبر بقیۃ الله الاعظم، ص۴۶ سے آگے

 


source : www.islamquest.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

قرآنِ مجید کی کون سی آیات علم و دانش کی اہمیت پر ...
شیعہ نماز میں کیوں سجدہ گاہ پر سجدہ کرتے ہیں؟
اولیائے الٰہی كیلئے عزاداری كا فلسفہ كیا ہے؟
ہدیہ کے بارے میں چار باتیں
خداوندعالم کو کیوں درک نہیں کیا جاسکتا؟
کیاامام زمانه کے زنده هونے پر عقلی دلائل موجود ...
اخباری شیعہ اور اثنا عشری شیعہ میں کیا فرق ہے؟
کیا زوجہ جعفر طیار اسماء بنت عمیس نے آپ کی شہادت ...
قرآن مجید کی نظر میں مجسّمہ سازی اور نقاشی کے ھنر ...
اہل تشیع (دو)نمازوں کو ایک کے بعد ایک ملا کر کیوں ...

 
user comment