کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں بیداری امت مسلمہ علماء کانفرنس سے خطاب میں علامہ ساجد علی نقوی نے کہا کہ پاکستان میں تشیع کے خلاف جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں، میں نے بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، جماعت اسلامی کسی مسلک پر بھی تشیع کے خلاف دہشتگردی میں ملوث ہونے کا الزام نہیں لگایا، ممکن ہی نہیں ہے کہ یہ مسالک تشیع کے خلاف دہشتگردی میں ملوث ہوں، ان تمام مسالک کا کردار پاکستان میں بہت اچھا ہے، یہ تمام مسالک امن پسندی کی طرف رغبت دلانے والے ہیں، امن پسندی کی کوشش کرنے والے ہیں، ان تمام مسالک کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں ہے، پاکستان میں کچھ گروہ ہیں، جو دہشتگردی کیلئے پالے گئے ہیں، اس مقصد کیلئے تیار کئے گئے ہیں، انہیں گروہوں کے ذریعے تمام دہشتگردانہ کارروائیاں ہو رہی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی داخلی سلامتی کیلئے ضروری ہے کہ ان دہشتگرد گرہوں کی کارروائیاں روکی جائیں، خاص کر جو تکفیری گروہ ہے، میں تمام دینی جماعتوں سے تقاضہ کروں گا کہ وہ بھی ہماری طرح تکفیریوں سے اجتناب کریں، ان کی کوئی مجبوری تو الگ بات ہے، ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں ہے، ہم نے ان تکفیریوں کو گندگی کے ڈھیر پر کھڑا کر دیا ہے اور ہم تمام دینی جماعتوں کے عین وسط میں موجود ہیں۔
شیعہ علماء کونسل سندھ کے زیراہتمام یمن اور مسلم ممالک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر عزا خانہ زہرا (س) سولجر بازار کراچی میں بیداری امت مسلمہ علماء کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس کی صدارت شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کی۔ اس موقع پر علامہ ساجد علی نقوی کے خصوصی خطاب کے علاوہ جعفریہ الائنس پاکستان کے سربراہ علامہ محمد عباس کمیلی، جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر اسد اللہ بھٹو، علامہ سید صادق رضا تقوی، ایس یو سی سندھ کے جنرل سیکرٹری علامہ سید ناظر عباس تقوی، مرکزی رہنما مولانا شبیر میثمی، مولانا جعفر سبحانی سمیت دیگر علماء کرام نے بھی اظہار خیال کئے۔ کانفرنس میں علماء کرام و طلاب کثیر تعداد میں شریک تھے۔ بیداری امت مسلمہ علماء کانفرنس کے اختتام پر متفقہ اعلامیہ بھی پیش کیا گیا، جبکہ کانفرنس کا اختتام دعائے سلامتی امام زمانہ (عج) سے کیا گیا۔ بیداری امت مسلمہ علماء کانفرنس سے اپنے خصوصی خطاب میں علامہ ساجد علی نقوی نے کہا کہ یمن کی جنگ فرقہ وارانہ نہیں بلکہ خالصتاً سیاسی مسئلہ ہے، پاکستان کو اس مسئلہ میں مصالحتی کردار ادا کرنا چاہیئے، موجودہ صورتحال میں غیر جانبدار رہتے ہوئے تمام برادر اسلامی ممالک سے مل کر مسئلہ حل کرانے کیلئے کردار ادا کرے، مذکورہ جنگ میں پاکستان کے ملوث ہونے سے پاکستان کیلئے خطرات جنم لے سکتے ہیں۔
بیداری امت مسلمہ علماء کانفرنس سے اپنے خصوصی خطاب میں علامہ ساجد علی نقوی نے کہا کہ مشرق وسطٰی کی صورتحال پر ایک عرصہ سے ارباب اختیار کو مسلسل متوجہ کیا جاتا رہا ہے کہ جنگجو بھجوانے کے سلسلے کو رکوایا جائے اور صورتحال کو سنبھالنے کیلئے کردار ادا کیا جائے۔ علامہ ساجد نقوی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کا یمن کی حالیہ کشیدہ صورتحال میں مصالحانہ کردار ہی واحد راستہ ہے، کیونکہ اس وقت مشرق وسطٰی کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، اگر ایسے حالات میں پاکستان نے مثبت کردار ادا نہ کیا تو اس کے اثرات ہماری سلامتی کے ساتھ ساتھ خطے پر بھی پڑسکتے ہیں، ان حالات میں پاکستان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ اس شعر ”تو کارزمین رانکو ساختی، کہ باآسماں نیز پرداختی“ کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے، اور اپنے داخلی مسائل پر کامل توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ تحفظ حرمین کو کیا خطرہ لاحق ہوا، کیسے ہوا، اس کی ضرورت کیوں پیش آئی، مجھے اب تک اس بات کا سراغ نہیں مل سکا، لیکن جنگ یمن کا ایک شاخسانہ فرقہ واریت کی صورت میں پاکستان میں لانے کی سازش کی جا رہی ہے، تاکہ یہاں شیعہ سنی فسادات کرائے جائیں، اس لئے میں یہ کہتا ہوں کہ حکومتوں کے پاس کچھ بھی اختیار نہیں، اس لئے فضاء کو بہتر بنانے کے علاوہ کوئی چاہ کار نہیں، تاکہ لوگ کیلئے بہتر زندگی گزارنے کا موقع پیدا کریں، یہ اعزاز مجھے حاصل ہے کہ جب یمن کا مسئلہ پیدا ہوا تو سب سے پہلے میں نے بیان دیا کہ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مصالحانہ کردار ادا کرے، دانشمندی کا تقاضہ ہے کہ پاکستان مصالحت کا کردار ادا کرے، اگر نہیں کریگا تو جو منفی اثرات پاکستان کی سرزمین پر آئیں گے، اسے روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔
سربراہ شیعہ علماء کونسل نے کہا کہ ہمارا نکتہ نگاہ اور مؤقف واضح ہے کہ طاقت کا بے جا استعمال غلط اور مزید انتشار اور بگاڑ کا باعث بنے گا، اس لئے مسلمان گروہوں اور ممالک میں مسائل باہمی افہام و تفہیم سے حل کرائے جائیں، مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کو متوجہ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہو اور امہ کے اتحاد کیلئے میدان عمل میں آئے، کیونکہ اس پلیٹ فارم کا بڑا مقصد یہی ہے، جبکہ دیگر نمائندہ تنظیموں کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ میں جانتا ہوں کہ اس ملک کو by design چلایا جا رہا ہے، حکومتوں کے پاس کچھ بھی اختیارات نہیں ہیں، میرے کچھ عزیز عدالتوں پر برستے ہیں لیکن انہیں معلومات نہیں ہیں، عدالتوں کی میں حمایت نہیں کرتا کہ عدالتی سسٹم 100 فیصد صحیح ہے، ایک آدھ کے علاوہ ایک کیس بھی صحیح انداز میں تیار نہیں کرنے دیا گیا، پہلے نیشنل سکیورٹی پالیسی اس ملک میں بنائی جا رہی تھی لیکن وہ مکمل نہیں ہوئی، اب نیشنل ایکشن پلان بنوایا گیا اور اس کے بعد کی صورتحال آپ کے سامنے ہے کہ کتنا عمل ہوا، کیوں دہشتگردی کے واقعات روکے نہیں جاسکے یا ہونے کے بعد ان دہشتگردوں کا نیٹ ورک عوام کے سامنے واضح کیا جاتا کہ کہاں پلتے رہے، کون انہیں پالتا رہا، انکے ٹرینگ کیمپس کہاں پر ہیں، ان کے نیٹ ورکس کہاں پر ہیں، انہیں کون فنڈنگ کرتا ہے، کون ان کا سہولت کار ہے، کون تربیت دیتا ہے، سانحہ شکارپور میں ملوث دہشتگرد عناصر رات کسی کے ہاں ٹہرے ہونے، انہیں کسی نے سہولتیں فراہم کی ہونگی، ان تمام پر سے کوئی پردہ اٹھانے کو آمادہ نہیں ہے اور کسی کے بس میں بھی نہیں ہے۔
علامہ ساجد علی نقوی نے کہا کہ بہت سارے راستے ہمارے پاس کھلے ہیں، جنہیں ہم اختیار بھی کرسکتے ہیں، میں کہہ چکا ہوں کہ یہ آخری مرحلہ ہے کہ اگر نیشنل ایکشن پلان کامیاب نہیں ہوتا تو میں یہ سمجھوں گا کہ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ آپ اپنی ملت اور محروموں کیلئے خود ایکشن پلان بنائیں، پھر ہم خود اپنے تحفظ کیلئے ایکشن پلان بنائیں گے، کیونکہ پاکستان ہمارا ہے، ہم اس کے وارث و مالک ہیں، حصہ دار ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ میری اور تمام شہریوں کی جان، مال و حقوق کا تحفظ کرے اور جب ریاست ناکام ہوجائے تو پھر ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے تحفظ و دفاع کیلئے، اپنی سلامتی کیلئے قانون و آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اقدامات کریں اور میں سمجھتا ہوں آئین و قانون کو۔ جس طرح میں امت مسلمہ کے اندر اتحاد کی بات کرتے ہیں، ویسے ہی میں تشیع کے اندر بھی اتحاد کی بات کرتا رہتا ہوں، اس اتحاد کا پہلا انداز یہ رہا ہے کہ کبھی کسی کے خلاف بات نہیں کی، کسی کی مذمت نہیں کی، کبھی کسی کے سامنے رکاوٹ کھڑی نہیں کی، کبھی کسی کے خلاف سازش کا سوچا تک نہیں ہے، سب عزیر ہیں، سب ہمارے ہیں، لیکن ہر ایک کو منفی انداز سے گریز کرنا چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تشیع کے خلاف جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں، میں نے بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، جماعت اسلامی کسی مسلک پر بھی تشیع کے خلاف دہشتگردی میں ملوث ہونے کا الزام نہیں لگایا، ممکن ہی نہیں ہے کہ یہ مسالک تشیع کے خلاف دہشتگردی میں ملوث ہوں، ان تمام مسالک کا کردار پاکستان میں بہت اچھا ہے، یہ تمام مسالک امن پسندی کی طرف رغبت دلانے والے ہیں، امن پسندی کی کوشش کرنے والے ہیں، ان تمام مسالک کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں ہے، پاکستان میں کچھ گروہ ہیں، جو دہشتگردی کیلئے پالے گئے ہیں، اس مقصد کیلئے تیار کئے گئے ہیں، انہیں گروہوں کے ذریعے تمام دہشتگردانہ کارروائیاں ہو رہی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی داخلی سلامتی کیلئے ضروری ہے کہ ان دہشتگرد گروہوں کی کارروائیاں روکی جائیں، خاص کر جو تکفیری گروہ ہے، میں تمام دینی جماعتوں سے تقاضا کروں گا کہ وہ بھی ہماری طرح تکفیریوں سے اجتناب کریں، ان کی کوئی مجبوری تو الگ بات ہے، ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں ہے، ہم نے ان تکفیریوں کو گندگی کے ڈھیر پر کھڑا کر دیا ہے اور ہم تمام دینی جماعتوں کے عین وسط میں موجود ہیں۔ اپنے خطاب کے آخر میں انہوں نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ باری تعالٰی اُمت مسلمہ کو سلامتی عنایت فرمائے، فتنوں اور جنگ و جدال کے شر سے محفوظ رکھے اور فکری انتشار کے اس دور میں اتحاد کے ذریعے مسائل حل کرنے اور اس کے لئے کوشاں رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
بیداری امت مسلمہ علماء کانفرنس کا متفقہ اعلامیہ:
٭ قرآن کے حکم کے مطابق اللہ تعالٰی کی رسی کو تھامے رکھیں گے اور تفرقہ میں نہیں پڑیں گے۔
٭ ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام امن و آشتی و رواداری کا درس دیتا ہے جس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
٭ استعماری قوتیں عالم اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، علماء کرام و حکمران مسلم اُمہ میں اتحاد و اتفاق کیلئے کوششیں کریں، تاکہ اتحاد و اتفاق ہی سے عالمی سامراجی قوتوں کی سازشیں ناکام بنائیں گے۔
٭ مختلف مکاتب فکر کے درمیان محبت، رواداری اور افہام و تفہیم کی فضاء قائم کرنے میں بھرپور کردار ادا کریں گے۔
٭ تمام مسالک کے اکابر اور عقائد کا احترام کیا جائے گا، تکفیریت امت مسلمہ کیخلاف ایک سازش ہے جسے علماء مل کر ناکام بنائیں گے۔
٭ علماء، خطباء اور مصنفین کی تقریروں اور تحریروں میں توازن و اعتدال پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
٭ مقامات مقدسہ کے احترام اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔
٭ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت بھی یقینی بنائی جائے گی۔
٭ مسلکی تنازعات کو باہمی مشوروں اور افہام و تفہیم کے ذریعے طے کیا جائے گا۔
٭ امہات المومنینؓ، صحابہ کرامؓ، اہلبیت اطہارؑ، اولیائےؒ امت اور تمام مسلمانوں کا احترام مدنظر رکھا جائے گا۔
٭ تمام طبقات کے حقوق کی پاسداری اور اپنے فرائض کی بجا آوری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے گا۔
٭ قومی و ملکی معاملات و حالات کی اصلاح میں تمام مکاتب فکر کے علماء کردار ادا کریں گے۔
٭ پاکستان کی سالمیت، تحفظ اور ترقی کیلئے کوششیں کی جائیں گی اور ملک کو دہشتگردی سے نجات دلانے کیلئے کردار ادا کیا جائے گا۔
٭ شرکاء کانفرنس حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عالمی برادری پر زور دے کہ تمام انبیائے کرام و مقدس ہستیوں کا احترام لازم قرار دیا جائے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد کرکے فحاشی و عریانی کا خاتمہ کیا جائے۔
رپورٹ: ایس زیڈ ایچ جعفری
source : abna