انجمن شرعی شیعیان کے سربراہ اور سینئر حریت رہنما آغاسید حسن الموسوی الصفوی نے شیعیان کشمیر اور کچھ دیگر قبیلوں سے متعلق بھارتی وزارت داخلہ کی رپورٹ اور سفارشات کو مفروضات قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ تنازعہ کشمیر مذہبی یا مسلکی معاملہ نہیں بلکہ سوا کروڑ کشمیری قوم کے سیاسی مستقبل اور حق خودارادیت کا سوال ہے، جس میں مسلمان، ہندو، بودھ سکھ وغیرہ تمام طبقہ ہای فکر کے مذہب و مسلک شامل ہیں۔ آغا صاحب نے کہا کہ حکومت ہند اس طرح کی رپورٹ اور سفارشات سے کشمیر میں خانہ جنگی اور مسلکی تشدد کو ہوا دے کر اپنے تسلط پسندانہ عزائم کی تکمیل کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہدلیکشمیری عوام کی تحریک آزادی کارُخ موڑنے کیلئے مسلکی منافرت کے ایک منصوبہ بند گیم پلان پر کام کر رہی ہے، مزاحمتی قیادت پورے معاملے سے باخبر ہے۔ آغا صاحب نے کہا کہ کشمیر کی شیعہ برادری ملت اسلامیہ کشمیر اور تحریک حق خود ارادیت کا ناقابل تنسیخ حصہ ہے۔ بھارتی وزارت داخلہ کی مفروضات پر مبنی رپورٹ سے حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری شیعہ برادری کی پسماندگی اپنی جگہ پر ایک مسلمہ حقیقت ہے ، لیکن شیعیان کشمیرنے اپنی پسماندگی کے ازالے کیلئے کسی بھی قیمت پر اتحاد بین المسلمین اور برحق تحریک آزادی کے ساتھ یکجہتی و وابستگی کے تقاضوں کو نظرانداز نہیں کیا ہے ۔آغا صاحب نے کہا کہ ایسے ملک اور حکومت سے شیعیان کشمیر کو کیا توقع ہوسکتی ہے جس نے شیعیان کشمیرکے تاریخی جلوس ہائے عاشورا پر27 سال سے قدغن عائد کررکھی ہے۔ تحریک کے اس فیصلہ کن موڑ پر شیعیان کشمیر کی فتنہ انگیز دلجوئی کی بات کرکے بھارتی وزارت داخلہ کون سا شطرنج کا کھیل کھیلنا چاہتی ہے، اُس سے کشمیر کاشیعہ فرقہ اچھی طرح واقف ہے۔ آغا صاحب نے کہا کہ ریاست کی شیعہ برادری کی تحریک سے وابستگی اور قربانیاں کشمیر کی سیاسی تاریخ کاایک درخشاں باب ہے، اور بھارتی منصوبہ بندیوں کے باوجود شیعیان کشمیر تنازعہ کشمیر کے حوالے سے کسی بھی صورت میں حق و انصاف اور ظالم سے نفرت و مظلوم سے یکجہتی کے تقاضوں کو نظرانداز نہیں کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۴۲
تنازعہ کشمیر مذہبی یامسلکی معاملہ نہیں، کشمیری قوم کے سیاسی مستقبل کا سوال
وزارت داخلہ کی مفروضاتی رپورٹ پر آغا حسن کاشدید ردعمل
سرینگر/انجمن شرعی شیعیان کے سربراہ اور سینئر حریت رہنما آغاسید حسن الموسوی الصفوی نے شیعیان کشمیر اور کچھ دیگر قبیلوں سے متعلق بھارتی وزارت داخلہ کی ریورٹ اور سفارشات کو مفروضات قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ تنازعہ کشمیر مذہبی یا مسلکی معاملہ نہیں بلکہ سوا کروڑ کشمیری قوم کے سیاسی مستقبل اور حق خودارادیت کا سوال ہے، جس میں مسلمان، ہندو، بودھ سکھ وغیرہ تمام طبقہ ہای فکر کے مذہب و مسلک شامل ہیں۔ آغا صاحب نے کہا کہ حکومت ہند اس طرح کی رپورٹ اور سفارشات سے کشمیر میں خانہ جنگی اور مسلکی تشدد کو ہوا دے کر اپنے تسلط پسندانہ عزائم کی تکمیل کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہدلیکشمیری عوام کی تحریک آزادی کارُخ موڑنے کیلئے مسلکی منافرت کے ایک منصوبہ بند گیم پلان پر کام کر رہی ہے، مزاحمتی قیادت پورے معاملے سے باخبر ہے۔ آغا صاحب نے کہا کہ کشمیر کی شیعہ برادری ملت اسلامیہ کشمیر اور تحریک حق خود ارادیت کا ناقابل تنسیخ حصہ ہے۔ بھارتی وزارت داخلہ کی مفروضات پر مبنی رپورٹ سے حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری شیعہ برادری کی پسماندگی اپنی جگہ پر ایک مسلمہ حقیقت ہے ، لیکن شیعیان کشمیرنے اپنی پسماندگی کے ازالے کیلئے کسی بھی قیمت پر اتحاد بین المسلمین اور برحق تحریک آزادی کے ساتھ یکجہتی و وابستگی کے تقاضوں کو نظرانداز نہیں کیا ہے ۔آغا صاحب نے کہا کہ ایسے ملک اور حکومت سے شیعیان کشمیر کو کیا توقع ہوسکتی ہے جس نے شیعیان کشمیرکے تاریخی جلوس ہائے عاشورا پر27 سال سے قدغن عائد کررکھی ہے۔ تحریک کے اس فیصلہ کن موڑ پر شیعیان کشمیر کی فتنہ انگیز دلجوئی کی بات کرکے بھارتی وزارت داخلہ کون سا شطرنج کا کھیل کھیلنا چاہتی ہے، اُس سے کشمیر کاشیعہ فرقہ اچھی طرح واقف ہے۔ آغا صاحب نے کہا کہ ریاست کی شیعہ برادری کی تحریک سے وابستگی اور قربانیاں کشمیر کی سیاسی تاریخ کاایک درخشاں باب ہے، اور بھارتی منصوبہ بندیوں کے باوجود شیعیان کشمیر تنازعہ کشمیر کے حوالے سے کسی بھی صورت میں حق و انصاف اور ظالم سے نفرت و مظلوم سے یکجہتی کے تقاضوں کو نظرانداز نہیں کریں گے۔