امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ “عرب سربراہان یہودی ریاست کے ساتھ اپنے «تزویری تعلقات» خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے” چنانچہ انھوں نے فلسطینیوں کو بھلا دیا ہے۔
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ غزہ پٹی اور مغربی کنارے کے ہزاروں فلسطینیوں نے 30 مارچ کو یوم الارض کی بیالیسیوں برسی کے موقع پر “واپسی کی ریلی” کے عنوان سے پرامن ریلیاں نکالیں لیکن یہودی ریاست کے گماشتوں نے نہتے فلسطینیوں پر گولی چلائی، جس کے نتیجے میں اب تک 18 افراد جان بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ یہ ریلیاں فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی پر تاکید کی غرض سے ہر سال نکالی جاتی ہیں۔
وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے خاص خاص نکات:
– جو کچھ ان ایام میں رونما ہوا بظاہرغزہ کے معمول کی صورت حال کا تسلسل تھا۔ حماس غزہ کے ہزاروں باشندوں کو اسرائیل کی سرحد پر لائی تھی تا کہ صہیونی ریاست کے ہاتھوں فلسطین پر قبضے کی سترویں برسی کی آمد آمد پر چھ ہفتوں تک جاری رہنے والے احتجاج کا آغاز کردے۔ فلسطین کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے اس احتجاج کو فلسطینیوں کی پوری سرزمین فلسطین میں واپسی کا آغاز قرار دیا تھا لیکن ایسا تھا نہیں ۔۔۔ بہت سی گولیاں چلیں اور جب آگ کا دھواں بیٹھ گیا، یوم الارض منانے والے بےشمار فلسطینی ارض فلسطین پر گرے نظر آئے جو جان بحق ہوچکے تھے ۔۔۔ نتیجتاً ان ہی پرانے لوگوں نے اسی پرانی روش سے اسرائیل کے اقدامات کی مذمت کی اور کچھ لوگوں نے یہودی ریاست کی حمایت کے لئے اپنے معمول کے دلائل پیش کئے۔
– یہ درست ہے کہ مذمت یا پھر حمایت کرنے والوں کی روش روایتی تھی لیکن جو کچھ غزہ میں رونما ہو رہا ہے، وہ سابقہ رویوں کا تسلسل نہيں ہے۔ عربی بہار کی تحریکیں ناکام ہوچکی ہیں اور شام میں بھی اہل سنت کی حمایت کی آڑ میں شروع ہونے والی جنگ بھی شکست کھا چکی ہے جس کی قیمت چکانے کا وقت ہے چنانچہ لگتا ہے کہ مشرق وسطی (یعنی مغربی ایشیا) میں زمین کا ڈھانچہ بدل رہا ہے۔
ـ آج زیادہ تر عرب حکام اسرائیل اور امریکہ کی حمایت کررہے ہیں ۔۔۔ لیکن امریکی حمایت ـ جس کا عرب حکمرانوں نے سہارا لیا ہؤا ہے ـ مثبت قرار نہیں دی جاسکتی؛ کیونکہ ٹرمپ نے عربوں کی اسرائیلی حمایت کے ان ہی دنوں میں اچانک ـ گوکہ ظاہری طور پر ـ شام سے اپنی افواج کے انخلاء کا اعلان کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ امریکی حمایت پر اتنا بھروسہ نہیں کیا جاسکتا جتنا کہ عرب حکمران اس کا بھروسہ کئے بیٹھے ہیں۔ ان حالات میں یہودی ریاست کی واشنگٹن کے مقتدر حلقوں تک رسائی کی بنا پر شہر قدس عربوں کے نزدیک زيادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے، اور شاید یہودی ریاست ہی لمبے عرصے تک اس علاقے میں امریکی موجودگی کو یقینی بناسکے۔
ـ اس وقت عرب حکمران فلسطینیوں کے مطالبات کو اپنے اور اسرائیلی حکام کے درمیان کے تزویری اتحاد کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ خلیج فارس کی اکثر عرب ریاستیں اور مصری حکومت بظاہر دو بنیادی اہداف کے سلسلے میں اتفاق رائے رکھتے ہیں:
1۔ غزہ میں حماس کو کچل دو، اور اس علاقے کی حکمرانی فتح پارٹی کی سربراہی میں قائم فلسطینی اتھارٹی کو واپس لوٹا دو۔
2۔ فلسطینی اتھارٹی پر دباؤ اتنا بڑھا دو کہ صہیونی حکام کی اس خاص قسم کی مصالحت کے سامنے سرتسلیم خم کرے، جسے یاسر عرفات اور ان کے جانشین مسترد کرتے رہے تھے۔ [ان دونوں اہداف کے حصول میں مصر اور خلیج فارس کی عرب ریاستیں امریکہ اور یہودی ریاست کے ساتھ پورا پورا تعاون کررہی ہیں]۔
ـ محمود عباس اور ان کی فلسطینی اتھارٹی “وقت” خریدنے کے چکر میں ہیں، وہ حماس کے زیر اثر علاقوں میں فلسطینی اتھارٹی کے سرکاری کارکنوں کی تنخواہیں ادا کرنے سے انکاری ہیں اور یوں وہ اول الذکر ہدف کے حصول کے لئے عربوں، امریکہ اور صہیونی ریاست کا ہاتھ بٹا رہے ہیں لیکن ساتھ ہی اسرائیل کے ساتھ مصالحت کے لئے اپنے اوپر آنے والے دباؤ کے آگے مزاحمت کررہے ہیں؛ گوکہ ابھی معلوم نہیں ہے کہ اس دباؤ کے آگے فلسطینی اتھارٹی کا آخری جواب کیا ہوگا۔ بہرحال اگر فلسطینی اتھارٹی بالآخر عربوں کی حمایت یافتہ مصالحت کو قبول بھی کرے، یہ نمائشی مزاحمت اس وقت فلسطینی عوام کے ہاں اس کے اعتبار کو تقویت پہنچا رہی ہے۔
ـ اخبار نے دعوی کیا ہے کہ حماس کی صورت حال زیادہ ناامید کرنے والی ہے۔ عرب ممالک کا بائیکاٹ اور غزہ میں مسلسل ہڑتالیں غزہ کو اس قدر مفلوج کریں گی کہ اسرائیلی کبھی بھی اسے اس حد اسے کمزور نہیں کرسکتے تھے۔ غزہ میں اشیاء خورد و نوش کی شدید قلت ہے، بجلی کی صورت حال عجیب ہے، بےروزگاری 40 فیصد سے بڑھ چکی ہے، نکاسی کا نظام ناقص ہے اور گندا پانی سمندر میں گرتا ہے۔ غزہ کے بہت سے باشندے صرف سکون چاہتے ہیں ۔۔۔ جبکہ اگر حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑ جائے تو عرب فلسطینیوں کی حمایت نہیں کریں گے۔
ـ اخبار کے بقول عرب حکام اس وقت [فلسطین کے مظلوم اور پسے پٹے عوام کے ساتھ ساتھ] ایران اور ترکی کو [بھی] اپنا رقیب سمجھتے ہیں؛ فلسطینیوں اور دوسرے عربوں کے درمیان دراڑیں پرانی ہیں لیکن یہ بات بالکل تازہ ہے کہ علاقے میں عرب قوم پرستی مکمل طور پر زائل ہوچکی ہے، عرب سیاستدان [جو ایران کے مقابلے میں اپنی عروبت اور سنی عقیدے کی آڑ لیتے ہیں] مزید سنی مذہب کو بھی بھول چکے ہیں اور ان کی سنی انتہاپسندی بھی شکست کھا چکی ہے جبکہ یہ دو عناصر کسی وقت فلسطینی کاز کی حمایت کا سبب بنا کرتے تھے، مزید ان [کی قومی اور دینی غیرت] کو نہیں جھنجھوڑتے۔
– وال اسٹریٹ جرنل نے آخر میں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے اور لکھا ہے: شام کی جنگ میں لاکھوں عوام گھربار چھوڑ کر پناہ گزینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں، اور دوسرے عرب ممالک کی خودمختار کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں چنانچہ اب عربوں میں فلسطین کو اپنی ترجیحات میں سر فہرست رکھنے سے عاجز ہوچکے ہیں۔۔۔ اخبار نے البتہ ان مسائل کے اسباب کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔
اخبار نے یہ نہیں لکھا ہے کہ شام پر خانہ جنگی امریکہ ـ یورپ ـ قطر ـ امارات ـ ترکی اور سعودی عرب نیز یہودی ریاست نے مسلط کی شاید اسی لئے وہ اس قدر عجز اور بےبسی کا شکار ہوجائیں کہ اپنی بقاء کو ہی اسرائیل کی قربت میں تلاش کریں؛ اور نوبت یہاں تک پہنچے کہ ایک امریکی اخبار لکھ سکے کہ “عرب حکمران اسرائیل کو اپنا دوست سمجھتے ہیں اور غزہ اور فلسطین کے دوسرے علاقوں کے عوام کو اپنا رقیب سمجھتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔
وال اسٹریٹ جرنل نے اس رپوٹ میں عربوں کی طرف سے فلسطین اور فلسطینیوں کی عدم حمایت پر زور دیتے ہوئے خود بھی عربی ـ امریکی ـ اسرائیلی دو نکاتی متفقہ منصوبے کے اول الذکر نکتے کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی ہے اور حماس کو نقصان پہنچانے کے لئے غزہ کے عوام کی ترجمانی کرنے کی کوشش کی ہے۔
بہرصورت، آج سے 8 سال قبل جب عرب دنیا میں انقلابوں کا سلسلہ چلا تو بہت سے نامی گرامی مبصرین نے پیشنگوئی کی تھی کہ اگر عرب ممالک ان تحریکوں کا تحفظ نہ کریں اور عربی بہار یا اسلامی بیداری کی تحریکیں ناکام ہوجائیں تو عرب دنیا کو مزید ایک صدی تک امریکی اور یورپی غلامی برداشت کرنا پڑے گی اور آج وہ پیشنگوئیاں عملی جامہ پہننے لگی ہیں اور واحد چارہ کار پھر بھی وہی ہے کہ عرب عوام جاگ جائیں اور بیرونی کٹھ پتلیوں کو گھر کا راستہ دکھا کر اپنے مقدرات کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔
بے شک مظلوم فلسطینی، یمنی، لبنانی، عراقی اور شامی عوام نیز اسلامی مزاحمت تحریک کی مجاہدتیں بہرحال رنگ لائیں گی اور یہ صد سالہ استکباری منصوبے کو ناکام بنائیں گی؛ عرب عوام کو آخر کار فلسطین اور قبلہ اول کا ساتھ دینا پڑے گا کیونکہ آل سعود کی طرف سے اسرائیل کے تسلیم کئے جانے کے بعد مکہ اور مدینہ کے حرمین کا حال بھی قدس اور قبلۂ اول کی طرح ہوسکتا ہے اور تب مسلمانوں کو بہت زیادہ جانی اور مالی نقصانات برداشت کرکے انہیں دشمنان خدا سے آزاد کرانا پڑے گا۔
بشکریہ جاثیہ تجزیاتی ویب سائٹ