الجزائر کے 50 طلباء ایران کے مقدس شہر قم میں حاضر ہوکر شیعہ ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے الجزائر کے سلفیوں نے ایک بار پھر مذہب تشیع کے فروغ کے بہانے اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق "شبستان ویب سائٹ" نے لکھا: اس وقت جبکہ گمراہ وہابی فرقے کو الجزائر میں بغیر کسی رکاوٹ کے فروغ دیا جارہا ہے حوزہ قم میں شارت کورس کے لئے آنے والے 50 الجزائری طلبہ نے بیک وقت تشیع اختیار کرنے کا اعلان کیا تو ان حضرات کو تشویش لاحق ہوئی ہے۔
الجزائر کے سلفی علماء نے ایک بیان جاری کرکے تشیع کے فروغ کو اپنی دیانت کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ حضرات تشیع کے فروغ سے فکرمندی کا اظہار کرتے ہیں ایک بار بھی اپنے نقائص اور منظقی کمزوریوں کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا کیوں نہیں کرتے؟ یہ لوگ جستجو اور تحقیق، تفکر و تدبر کو حرام کیوں قرار دے رہے ہیں؟ کیا قرآن مجید میں اللہ تعالی کی اس فرمان کا انکار کیا جاسکتا ہے کہ "وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَن يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَى فَبَشِّرْ عِبَادِ * الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُوْلَئِكَ هُمْ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ۔ (سوره زمر آیات 16 و 17)
اور وہ لوگ جنہوں نے طاغوت کی عبادت و بندگی سے پرہیز کیا اور اللہ کی جانب لوٹ گئے، بشارت اور خوشخبری ان ہی کے لئے ہے پس میرے بندوں کو بشارت دیں، وہی جو باتیں (سب کی) سنتے ہیں اور بہترین قول کی پیروی کرتے ہیں؛ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت عطا فرمائی ہے اور یہی لوگ عقلمند ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی کو تحقیق و تدبر سے منع کیا جائے تو کیا وہ "قولِ احسن" کا انتخاب کرسکے گا؟ اور ہاں کیا تحقیق و تدبر اور فکر و سوچ پر کئی صدیوں سے جاری پابندیوں کو مواصلات کے اس دور میں جاری رکھنا ممکن ہے؟ اور اگر سلفی علماء ان حقائق سے واقف ہیں تو منصفانہ انداز سے گفتگو کے دروازے کیوں نہیں کھولتے جبکہ انہیں اپنے عقائد کی درستی اور حقانیت کا بھی یقین ہے!؟۔
اور ہاں یہ وہابی حضرات جو مختلف ممالک میں اہل تشیع کے فتوی تو دیتے ہیں؛ فلسطین میں سنی مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش رہنے کے فتوے تو دیتے ہیں؛ عراق میں عدم استحکام پیدا کرنے کے فتوے تو دیتے ہیں؛ تو پھر یہ غزہ کے 15 لاکھ سنی مسلمانوں کی ناکہ بندی تشویش کا اظہار کیوں نہیں کرتے اور اس ناکہ بندی کے خاتمے کے فتوے کیوں نہیں دیتے؟ اور اس وقت جبکہ بین الاقوامی کاروان آزادی پر اسرائیل نے حملہ کیا ہے اور 20 افراد کو قتل کرکے 680 افراد کو یرغمال بنا لیا ہے تو اس سلسلے مین یہ لوگ تشویش کا اظہار کیوں نہیں کرتے اور فتوے کیوں نہیں دیتے؟
یہی ہے مسلمانوں کے لئے لمحۂ فکریہ اور یہی ہے وہ سوال جس کا جواب ہم سب کو الگ الگ ڈھونڈنا پڑے گا۔
source : http://abna.ir/data.asp?lang=6&Id=190427