مسجد الحرام کے تکفیری امام عبد الرحمن السدیس کی شیعوں کے خلاف ہرزہ گوئی پر اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا ہے۔
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے اس بیان میں کہا گیا ہے کہ حرمین شریفین زمانہ قدیم سے دنیا میں امن و صلح کا مظہر رہے ہیں، پیغمبر اکرم (ص) نے مکہ کو مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کا مرکز قرار دیا، اور ہر سال لاکھوں مسلمان اس مرکز اتحاد پر جمع ہو کر آپسی بھائی چارگی اور وحدت کا ثبوت دیتے ہیں لیکن ایسے حالات میں جہاں ایک طرف عالم اسلام شام، عراق اور یمن پر لگائے جارہے تکفیریت کے زخموں سے ناجور ہے دوسری طرف حرمین شریفین کے ٹھیکیدار جنہیں اسلام اور مسلمانوں کی عزت و آبرو کی لاج رکھتے ہوئے مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کی طرف دعوت دینا چاہیے اسلامی فرقوں کے خلاف حقیقت سے عاری باتیں کر کے مزید اختلافات کو ہوا دینے کے لیے کوشاں ہیں۔
اس بیان میں مزید آیا ہے کہ افسوس سے مسجد الحرام کے امام عبد الرحمان اور آل سعود کے سرکاری مفتی عبد العزیز آل الشیخ نے ایسے حالات میں شیعوں کے خلاف زبان کھولی ہے جب یمن میں شیعہ مسلمانوں کا قتل کیا جا رہا ہے اور جدہ کے ایئرپورٹ پر شیعہ زائرین کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔ یقینا ان شیوخ کی یہ ہرزہ گوئیاں امت مسلمہ میں سوائے فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کے کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گی۔
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی نے اپنے بیان میں عالم اسلام کے اندر تکفیری ٹولے کے بہیمانہ اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عالم اسلام اور مفتیان عرب سے یہ سوال پوچھا ہے کہ شیعوں کو مسلمانوں کا اصلی دشمن ٹھہرانے والو یہ بتاو پوری دنیا میں سر بازار، مسجدوں، گھروں اور پناہ گزیں کیمپوں میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والا کون ہے؟
اس بیان میں مزید آیا ہے کہ امام حرمین ذرہ اہلسنت کی تفسیروں کو اٹھا کر دیکھیں کہ اہل سنت کے بزرگ علماء نے سورہ بینہ کی ساتویں آیت کی تفسیر میں کیا لکھا ہے؟ کیا ان کی تمام تفسیروں میں یہ جملہ نہیں ملتا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اولئک خیر البریہ کی تفسیر میں فرمایا آنت یا علی و شیعتک ھم خیر البریہ۔
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی نے اس بیان کے آخر میں اہلسنت کے علماء، روشن فکر افراد اور دینی و مذہبی تنظیموں مخصوصا اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس طرح کی بیہودہ باتوں پر پابندیاں عائد کرائیں جو مسلمانوں کے درمیان خونریزی کا باعث بنتی ہیں نیز اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سیاسی طریقے سے سعودی حکومت پر دباو ڈالے اور اس طرح کے وقیحانہ اقدامات کا سد باب کروائے
source : abna