اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

روز قیامت کیا ہوگا؟

 

سوال: عملی زندگی میں انسان کبھی مجبور ہوتا ہے اور کبھی بااختیار اور کبھی حقیقت ان دونوں صورتوں کے درمیان ہوتی ہے۔ کیا جن باتوں میں وہ مجبور ہے روز قیامت اس سے ان باتوں کا حساب نہیں لیا جائے گا؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ دو چیزوں پر کوئی مواخذہ نہیں ہو گا: ایک وہ جو مجبوری کے عالم میں ہوئی اور دوسری وہ جس میں کوئی غلطی ہو گئی۔ یعنی بات سمجھنے میں غلطی ہو گئی یا عمل کرنے میں غلطی ہو گئی۔ یہ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ اس نے ان دونوں چیزوں سے مواخذہ اٹھا دیا ہے۔ زنا جیسے شنیع جرم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ جن عورتوں کو اس کام پر مجبور کیا جاتا ہے، اللہ ان کو بخشنے والا ہے، مگر اس کی شرط ہے کہ دل میں پاکیزگی کی خواہش ہونی چاہیے۔ اسی طرح ایمان جیسی دین کی اصل اساس کے بارے میں یہ بیان ہوا ہے کہ جس وقت persecution ہو رہی تھی، اس وقت اگر کوئی اۤدمی اپنے ایمان کو چھپا لیتا ہے اور کفر کا اظہار کرتا ہے، مگر اس کے دل میں ایمان موجود ہے تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیں گے۔ دوسری بات یہ بتا دی ہے کہ کسی خطا پر مواخذہ نہیں ہے۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو دین کو سمجھنے میں غلطی کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر بہت سے لوگ خود کش حملہ کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بالکل غلط ہے۔ لیکن وہ اس کام کو دین سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔ اس طرح کی غلطیوں میں اللہ تعالیٰ ان کی نیت کے لحاظ سے معاملہ کرے گا۔

سوال: قراۤن مجید میں ارشاد ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ ایسی صورت میں کسی انسان سے نیکی اور بدی کا حساب کیسے لیا جا سکتا ہے؟

جواب: قراۤن مجید میں ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے، اپنے قانون کے مطابق ہدایت دیتاہے۔ ہدایت اللہ تعالیٰ کا ایک قانون ہے۔ اگر اۤپ ہدایت پانا چاہتے ہیں اور اپنے اس ارادے میں مخلص ہیں تو اۤپ کی اۤزمایش ہو گی اور پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی توفیق اس میں شامل ہو جائے گی اور وہ پھر اۤپ کو ہدایت میں اۤگے بڑھائے گا۔ پھر ایک وقت یہ بھی اۤ جائے گا کہ اۤپ غلطی کرنے والے ہوں گے تو اللہ بچالے گا۔ وہ اصل میں صلہ ہو گا اس بات کا کہ اۤپ نے ہدایت کی سچی طلب اپنے اندر پیدا کی۔ اس کی مثال حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ ہے۔ جب نوبت یہاں تک اۤ گئی کہ وہ بھی پھسل جاتے، تو پھر خد ا نمودار ہوا اس نے کہا کہ نہیں! جس بندے نے اس حد تک اپنے اۤپ کو بچانے کی کوشش کی میں اس کو غلطی میں نہیں پڑنے دوں گا۔ دوسری صورت گمراہی کی ہے۔ گمراہی کا قانون یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب بندہ گمراہی اختیار کرتا ہے تو ارادے کی اۤزمایش ہوتی ہے پھر اللہ مختلف ذرائع سے اس کو درست کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ کے فرشتے بھی کوشش کرتے ہیں کہ یہ درست ہو جائے۔ جب وہ اس پر جم جاتا ہے اور فیصلہ کر لیتا ہے کہ مجھے غلط راستے پر جانا ہے تو پھر اۤہستہ اۤہستہ اللہ اسے ڈھیل دینا شروع کر دیتے ہیں اور پھر شیاطین کو موقع دے دیتے ہیں کہ وہ اس پر مسلط ہو جائیں جیسا کہ قراۤن میں ہے کہ جب وہ ہماری یاد سے پوری طرح غافل ہو جاتا ہے تو پھر ہم اس پر شیطان مسلط کر دیتے ہیں۔ تو پھر اللہ گمراہ کرتے ہیں۔ اسی بات کو دوسری جگہ اس طرح بیان کیا ہے کہ اللہ اس قراۤن کے ذریعے سے جس کو چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے، لیکن جانتے ہو گمراہ کن کو کرتا ہے جو پہلے نافرمانی پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔

سوال: بہت سی احادیث میں کہا گیا ہے کہ انسان کے جنتی اور دوزخی ہونے کا فیصلہ اس کی پیدایش سے قبل کر لیا گیا تو پھر انسان کو کیوں اۤزمایش میں ڈالا گیا۔ اۤپ کے خیال میں ایک انسان کے اچھے یا برے ہونے میں اس کا کیا کمال ہے؟

جواب: ایسا کوئی فیصلہ اللہ نے نہیں کیا۔ قراۤن اس معاملے میں بالکل واضح ہے البتہ اللہ تعالیٰ کا علم اپنی جگہ مسلم ہے۔ وہ مستقبل میں ہونے والے ہر واقعے سے واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کوئی شخص اپنے ارادے سے کیا کرے گا اور وہ اس کے نتیجے میں جنت یا دوزخ کا مستحق ٹھہرے گا۔

سوال: کیا اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ کون جنت میں جائے گا اور کون دوزخ میں۔ کیا اس سے انسان کی بے بسی ظاہر نہیں ہوتی؟

جواب: انسان کی بے بسی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انسان کو پورا اختیار دیا گیا ہے، چاہے جنت کا راستہ اختیار کرے چاہے دوزخ کا راستہ اختیار کرے۔ اللہ کا علم اس کے عمل پر موثر نہیں ہے۔

سوال: ایک کافر جس کے پاس اسلام پہنچا ہی نہیں یا اگر پہنچا ہے تو اس حد تک جس حد تک ہم تک عیسائیت یا یہودیت پہنچی ہے، اس کو روز قیامت کیسے دوزخ میں بھیجا جائے گا؟

جواب: یہ کسی نے نہیں کہا کہ وہ دوزخ میں جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے جتنا علم اس کو دیا اور جو حالات اس کو درپیش تھے، ان کے لحاظ سے معاملہ ہو گا۔ ہر شخص سے اس کے علم کے مطابق معاملہ ہو گا، کتنا علم تھا، کتنی ہدایت پہنچی۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کریں گے۔ مسلمان ہو، یہودی ہو، عیسائی ہو، جس کے پاس جتنی ہدایت پہنچی، اس کے مطابق اللہ تعالیٰ اس سے سوال کریں گے۔ یہ یقین رکھیں کہ وہاں یہ نہیں کہا گیا کہ جن کے نام مسلمانوں پر رکھے گئے ہیں صرف وہ جنت میں جائیں گے اور دوسرے سبھی جہنم میں۔ قراۤن دنیا کی واحد کتاب ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ کوئی یہودی ہو، مسلمان ہو یا عیسائی ہو، اس کا فیصلہ مذہبی بنیاد پر نہیں، بلکہ میرٹ پر ہو گا۔ اور وہ میرٹ ہے، اللہ پر سچا ایمان، قیامت پر سچا ایمان اور عمل صالح۔                                                                     جسمانی معاد

ہمارا عقیدہ ہے کہ اس جہان (آخرت) میں صرف انسان کی روح ہی نہیں بلکہ روح و جسم دونوں کو پلٹایا جائیے گا۔ کیونکہ اس جہان میں جو بھی کچھ انجام دیا گیا ہے اسی جسم اور روح کے ذریعہ انجام پایا ہے لہٰذا جزا یا سزا میں بھی دونوں کاہی حصہ ہونا چاہئے۔

معاد سے مربوط قرآن کریم کی اکثر آیات میں معاد جسمانی کا ہی ذکر ہوا ہے جیسے معاد پر تعجب کرنے والے مخالفین، جو یہ کہتے تھے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا؟ ان کے جواب میں قرآن کریم فرماتا ہے کہ  قل یحییا الذی انشائها اول مرة یعنی آپ کہہ دیجئے کہ انھیں وہی زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار خلق کیا تھا ۔

ایحسب الانسان ان لن نجمع عظامه ۔۔ بل قادرین علی ٰ ان نسوی بنانه یعنی کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی (بوسیدہ )ہڈیوں کو جمع(زندہ) نہیں کریں گے؟ ہاں! ہم تو یہاں تک بھی قادر ہیں کہ ان کی انگلیوں کے (نشانات) کو بھی مرتب کریں (اور انکو پہلی حالت پر پلٹادیں) ان آیات  کی طرح یبہت سی دوسری آیتیں بھی معاد جسمانی کو صراحت کے ساتھ بیان کرتی ہیں۔ وہ آیتیں جو یہ بیان کرتی ہیں کہ تم اپنی قبروں سے اٹھائے جاؤ گے وہ بھی معاد جسمانی کو ہی وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہیں۔ قرآن کریم کی معاد سے مربوط اکثر آیات معاد روحانی وجسمانی  پر ہی دلالت کرتی ہیں۔

معاد کی واضح دلیلیں

ہمارا عقیدہ ہے کہ معاد کی دلیلیں بہت واضح اورروشن ہیں کیونکہ :

الف: دنیا کی زندگی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ یہ دنیا، جس میں انسان چند دنوں کے لئے آتا ہے مشکلات کے درمیان زندگی بسر کرتا ہے اور مرجاتا ہے، انسان کی خلقت کا آخری ہدف ہو افحسبتم انما خلقناکم عبثاوانکم الینا لاترجعون   یعنی کیا تم یہ گمان کرتے ہوکہ ہم نے تمھیں کسی مقصد کے بغیر پیداکیا ہے اور تم ہمارے پاس پلٹ کر نہیں آؤ گے۔ یہ ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر معاد کا وجود نہ ہوتا تو دنیا کی زندگی بے مقصد رہ جاتی ۔

ب: الله کا عدل، اس بات کا تقاضاکرتا ہے کہ نیک اور بد لوگ، جو اس دنیا میں ایک ہی صف میں رہتے ہیں بلکہ اکثر بدکار آگے نکل جاتے ہیں، وہ آپس میں جدا ہوں اور ہر ایک اپنے اعمال کی جزا یاسزا پائے ام حسب الذین اجترحوا السیئات ان نجعلهم کالذین آمنوا وعملوا الصالحات سواء محیا هم ومماتهم ساء ما یحکمون یعنی کیا برائی اختیار کرنے والوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ہم انھیں ایمان لانے والوں اورنیک عمل کرنے والوں کے برابر قراردیں گے کہ سب کی موت و حیات ایک جیسی ہو، یہ انھوں نے بہت برافیصلہ کیا ہے ۔

ج: الله کی لا زوال رحمت اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کا فیض اور نعمتیں انسان کے مرنے کے بعد بھی قطع نہ ہوں بلکہ صاحب استعداد افراد کا تکامل مر نے کے بعد بھی اسی طرح ہوتا رہے کتب علی ٰ نفسه الرحمة لیجمعنکم الی ٰ یوم القیامة لاریب فیه یعنی الله نے اپنے اوپر رحمت کولازم قراردے لیا ہے وہ تم سب کو قیامت کے دن اکٹھا کرے گا، اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

جو افراد معاد کے بارے میں شک کرتے ہیں قرآن کریم ان سے فرماتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تم مردوں کو زندہ کرنے کے بارے میں، الله کی قدرت میں شک کر و، جب کہ تم کو پہلی بار بھی اسی نے پیدا کیا ہے۔ بس جس نے تمھیں ابتدا میں خاک سے پیدا کیا ہے وہی تمھیں دوسری زندگی بھی عطا کرے گا۔ افعیینا بالخلق الاول بل هم فی لبس من خلق جد ید   یعنی کیاہم پہلی خلقت سے عاجز تھے؟( کہ قیامت کی خلقت پر قادر نہ ہوں) ہر گز نہیں! لیکن وہ (ان روشن دلائل کے باوجود ) نئی خلقت کی طرف سے شبہ میں پڑے ہوئے ہیں  ضرب لنا مثلاً ونسی خلقه قال من یحی العظام وهی رمییم ۔۔۔۔ قل یحیها الذی انشائهااول مرة وهو بکل خلق علیم   یعنی وہ ہمارے سامنے مثالیں پیش کرتا ہے، اپنی خلقت کو بھول گیا، کہتا ہے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا؟، آپ کہہ دیجئے ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے انھیں پہلی مرتبہ خلق کیا تھا اور وہ ہر مخلوق کا بہتر جاننے والا ہے ۔

اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ زمین و آسمان کی خلقت زیادہ اہم ہے یا انسان کا پیدا کرنا ! بس جو اس وسیع جہان کو اس کی تمام شگفتگی کے ساتھ خلق کرنے پر قادر ہے وہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔  اولم یروا ان الله الذی خلق السمو ٰ ت والارض ولم یعی بخلقهن بقادر علی ٰ ان یحی الموتی ٰ بلی ٰ انه علی ٰ کل شی ٴ قدیر   یعنی کیا وہ نہیں جانتے کہ الله نے زمین وآسمان کو پیدا کیا اور وہ ان کو خلق کرنے سے عاجز نہیں تھا، بس وہ مردوں کو زندہ کرنے پر بھی قادرہے بلکہ وہ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

معاد کے بغیر زندگی بے مفہوم ہے

ہمارا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد ایک دن تمام انسان زندہ ہوں گے اور ان کے اعمال کے حساب کتاب کے بعد نیک لوگوں کو جنت میں وگناہگاروں کو دوزخ میں بھیج دیا جائے گا اور وہ ہمیشہ وہیں پررہیں گے۔ الله لا اله الا هو لا یجمعنکم الی ٰ یوم القیامة لاریب فیه الله کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ،یقینا قیامت کے دن، جس میں کوئی شک نہیں ہے،  وہ تم سب کو جمع کرے گا ۔

فاما من طغی ٰ  وآثر الحیوة الدنی ۔۔   فان الحجیم هی الماوی ۔۔ وامامن خاف مقام ربه ونهی النفس عن الهوی ۔۔  فان الجنة هی الماوی    یعنی جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو اختیار کیا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور جس نے اپنے رب کے مقام (عدالت) کا خوف پیدا کیا اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ دنیا ایک پل ہے جس سے گذرکر انسان آخرت میں پہونچتا ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں دنیا آخرت کے لئے تجارت کا بازار ہے یا ایک دیگر تعبیر کے مطابق دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام دنیا کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ” ان الدنیا دار صدق لمن صدقها ۔۔۔ ودار غنی لمن تزود منها، ودار موعظةلمن اتعظ بها، مسجد احباء الله ومصلی ٰ الملائکةالله ومهبط وحی الله ومتجر اولیاء الله “ یعنی دنیا سچائی کی جگہ ہے، اس کے لئے جو دنیا کے ساتھ سچی رفتار کرے ۔۔۔۔ اور بے نیازی کی جگہ ہے اس کے لئے جو اس سے ذخیرہ کرے ، اور آگاہی و بیدای کی جگہ ہے اس کے لئے جو اس سے نصیحت حاصل کرے ، دنیا دوستان خدا کے لئے مسجد ،ملائکہ کے لئے نماز کی جگہ، الله کی وحی کے نازل ہونے کا مقام اور اولیاء خدا کی تجارت کا مکان ہے۔

جاوید احمد غامدی

     وقار ملك

 


source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=70365
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

گھر کو کیسے جنت بنائیں؟ دوسرا حصہ
علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
بلی اگر کپڑوں سے لگ جائے تو کیا ان کپڑوں میں نماز ...
سوال کا متن: سلام عليکم. يا علي ع مدد. ....مولا علي ...
کیا بسم اللہ تمام سوروں کا جز ہے؟
کیا اسلامی ممالک کی بنکوں سے قرضہ لینا جائز ہے؟
حضرت زینب (س) نے کب وفات پائی اور کہاں دفن ہیں؟
خاتمیت انسانی تدریجی ترقی کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ...
دوسرے اديان کے پيروں کے ساتھ مسلمانوں کے صلح آميز ...
کائناتی تصور معصومین علیہم السلام کی نظر میں

 
user comment