کہنہ مشق امریکی سیاستدان ہینری كيسنگر نے حال ہی میں شائع ہونے والی دستاویزات میں فاش کیا ہے کہ اسرائیل نے اپنی پوری تاریخ میں امریکہ کو دہوکہ دے کر دنیا - بالخصوص مشرق وسطی – میں مختلف النوع مسائل اور مشکلات میں الجھادیا ہے .
«قدسنا» خبررسان ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں منعقد ہونے والی آناپولس کانفرنس کے انعقاد کے ساتھ ہی ایسی دستاویزات شائع ہوئی ہیں جن میں مشرق وسطی جیسے مسائل میں رچرڈ نکسن کے دور کے خطرات اور چیلنجوں کی طرف اشارہ ہؤا ہے. ان دستاویزات میں ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے سلسلے میں اسرائیلیوں کی خودسریوں اور امریکی حکومت کے خلاف صہیونی لابی کے دباؤ کو امریکہ کے اس دور کے چلینج قرار دیا گیا ہے.
ان دستاویزات میں نکسن کی قومی سلامتی کے مشیر ہینری کیسنگر اور سی آئی اے کے اس دور کے سربراہ رچرڈ ہولمز کے حوالے سے اعتراف ہؤا ہے کہ صہیونی ریاست نے نکسن کے لئے "خاص بحران" (Special Crisis) پیدا کیا تھا.
كيسنگر نے ایک طویل یادداشت میں اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل نے 1965 میں امریکہ کو دھوکہ دے کر ایٹمی ہتھیاروں میں استعمال ہونے والا مواد امریکہ کے اندر سے چوری کیا.
انہوں نے اس یادداشت میں لکھا ہے: ہم مسلسل ایک وحشتناک سیاسی دباؤ کا سامنا کررہے تھے اور اپنے آپ کو نہایت کمزور پوزیشن میں پارہے تھے.
امریکہ کے سیاستدان اور فوجی جرنیل ہمیشہ اس موقف پر متفق تھے کہ «اسرائیل ابھی تک خاص قسم کے فوجی آلات و ہتھیار نہیں بناسکا ہے».!
یہ تشویش بھی موجود تھی کہ اگر اسرائیل خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار حاصل کرلے تو اس سے مشرق وسطی میں خطرات و خدشات میں اضافہ ہوسکتا ہے اور سویت یونین عرب ممالک کے قریب تر ہوسکتا ہے.
مگر سیاسی اور سیکورٹی لابیوں کے موقف کے برعکس اسرائیل کے اندر ایک لابی ایسی تھی جو امریکی حکام پر دباؤ ڈال رہی تھی اور ساتھ ساتھ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان فوجی تعاون کے خاتمے میں رکاوٹ بن رہی تھی.
ان دستاویزات کے مطابق 1969 میں صدارتی انتخابات جیتنے والے رچرڈ نکسن کی صدارت کے ابتدائی برسوں میں نکسن نے تل ابیب کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول اور اس ریاست کو امریکی ساخت کے ایف 4 فینتم لڑاکا طیاروں کی ترسیل کی منظوری دی تھی مگر ہینری کیسنگر اور رچرڈ ہولمز نکسن کے اس فیصلے کے خلاف تھے اور ان دونوں نے امریکہ کی سیکورٹی حکام اورفوجی جرنیلوں کے ساتھ متعدد نشستیں منعقد کرکے اسرائیل کو این پی ٹی پر دستخط کرنے پر آمادہ کرنے کے مختلف طریقوں پر بحث کی تھی مگر ان کی تمام کوششیں اسرائیلی وزیر اعظم گولڈامائر اور وزیر دفاع اسحاق رابین کی مخالفت کی وجہ سے ناکام ہوئین.
كيسنگر نے لکھا ہے کہ اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کی نگرانی کا منصوبہ ایک بیہودہ منصوبہ تھا کیونکہ انہوں نے امریکیوں کو کبھی بھی ایٹمی ہتھیار بنانے میں مصروف تمام مراکز کے معائنے کی اجازت نہیں دی اور یہ ایسا پروگرام تھا جس کے سلسلے میں اسرائیل نے تسلسل کے ساتھ امریکیوں کو دھوکہ دیا.
ان اسناد میں عرب اسرائیل تنازعے کے حل کی امریکی کوششوں کے بارے میں بھی لکھا گیا ہے کہ امریکی حکام صلح کے ہر منصوبے سے پہلے اسرائیلیوں کے ساتھ مکمل ہماہنگی حاصل کرلیا کرتے تھے.
source : http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&Id=111394