امریکی روزنامہ نویس نکولس کرسٹف نے 16 مارچ 2011 کو بحرین کے بارے میں نیویارک ٹائمز میں ایک کالم لکھا جس میں انھوں نے ایک قابل غور واقعی سے پردہ اٹھایا۔
اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق نکولس کے ایک رفیق کار اور نیویارک ٹائمز کے ہی لکھاری مائکل اسلاکمین کو آل خلیفہ کی سیکورٹی فورسز نے پکڑ لیا اور اپنے ہتھیاروں سے ان کا نشانہ لیا۔ نکولس یہ دیکھ کر اپنے دوست کی موت کا بھی یقین ہوا لیکن اسلاکمین نے اپنا پاسپورٹ نکال کر انہیں دکھایا اور کہا: "میں ایک امریکی روزنامہ نویس ہوں؛ تو آل خلیفہ کے سپاہیوں کا رویہ بدل گیا اور ان سے نہایت مہربانی سے پیش آئے اور کہا: "ہم آپ کے تعاقب میں نہیں تھے بلکہ ہم تو اہل تشیع کا تعاقب کررہے ہیں"۔
اسلاکمین کہتے ہیں: میں نے محسوس کیا کہ ان کا سروکار انسانوں سے نہیں ہے بلکہ وہ گویا چوہوں سے تفتیش کررہے ہیں جیسا کہ قذافی لیبیا کے حریت پسندوں اور غرب و افلاس میں مبتلا لیبیائی انقلابیوں کو چوہوں اور جراثیموں سے تشبیہ دیا کرتے ہیں"۔
بحرین کی حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کی ستر فیصد سے زائد آبادی کا تعلق اہل تشیع سے ہے اور باقی آبادی میں صرف ایک فیصد مقامی اہل سنت کی ہے اور 27 فیصد آبادی کا تعلق بیرونی ممالک سے آکر شہریت حاصل کرنے والوں سے ہے۔
آل خلیفہ کا خاندان کہتا ہے کہ اہل تشیع 55 فیصد ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ انہیں اپنی آبادی کی تناسب سے تو کیا اپنی آدھی آبادی کے تناسب سے بھی معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق نہیں دیئے گئے ہیں۔
شیعیان بحرین کو فوج اور پولیس میں کسی صورت بھی بھرتی نہیں کیا جاتا حتی کہ بحرین کے چھوٹے سے ملک میں بھی شیعہ علاقے غیر شیعہ علاقوں کی نسبت شدید محرومیت اور غربت سے دوچار ہیں۔
اس سماجی ناانصافی کی وجہ سے دیگر عرب ممالک کی مانند بحرین میں بھی انقلاب کے دھماکے کے لئے مواقع فراہم ہوگئے ہیں۔
بحرین میں انقلاب اٹھا تو انقلاب کو خاموش کرنے کے لئے فرقہ واریت کا شوشہ چھوڑا گیا اور القاعدہ طرز کے ایک مولوی صاحب اور ان کے گروپ کو مسلح کیا گیا اور اس گروپ نے ہزاروں افراد کو زخمی بھی کیا اور کئی افراد کے ہاتھ پاؤں بھی کاٹ دیئے لیکن شیعیان بحرین نے اپنے قومی نعروں سے ہاتھ نہیں کھینچا اور فرقہ واریت کو ہوادینے کی آل خلیفی کوشش کو ناکام بنادیا لیکن وہاں آل سعود کی افواج کو اس ملک میں عوام کی تذلیل اور انقلاب کی شمع خاموش کرنے کے لئے جارحیت کی دعوت دی گئی جنہوں نے مساجد کو آگ لگادی، عوام کا بے تحاشا خون بہایا مقدسات کی توہین کی اور چادر اور چاردیواری کی حرمت کو توں کر رکھ دیا اور شدید ترین انداز سے فرقہ وارانہ تشدد کیا لیکن بحرینی عوام نے پھر بھی فرقہ واریت کو مسترد کر دیا۔
اب تو بعض مفتیوں اور عرب حکام نے فرقہ واریت کی رٹ لگا رکھی ہے اور بحرینی عوام کے مسائل کو نظرانداز کررہے ہیں لیکن زمانہ انقلابات کا ہے اور اس زمانے میں کسی قوم کے حقوق کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انقلاب بحرین ایران کی بجائے مصر کے انقلاب سے متأثر تھا اور ان ہی نعروں کے ساتھ معرض وجود میں آیا ہے۔
امریکی لکھاری نے بھی آل خلیفہ کے دعوے دہراتے ہوئے بحرین میں فرقہ واریت کو اہم قرار دیا اور کہا کہ اس ملک میں شیعہ اور سنی ایک دوسری کی لاش سے گذرکر اپنے حقوق کے حصول کو ممکن سمجھتے ہیں لیکن انھوں نے یہ نہیں لکھا کہ بحرین کا انقلاب شیعہ اور سنی بحرینیوں کا انقلاب ہے جس میں دونوں برابر کے شریک ہیں اور اس دور میں اس حقیقت کو چھپایا نہیں جاسکتا کہ اس انقلاب سے شیعیوں سے زیادہ ااہل سنت کو فائدہ مل رہا ہے جنہیں آل خلیفہ نے "ہم عقیدہ" ہونے کے بہانے مکمل طور پر دیوار سے لگارکھا ہے اور حتی ان کے ساتھ مذاکرات کے لئے بھی تیار نہیں ہوا ہے۔
بہر حال نکولس کرسٹف نے لکھا ہے کہ بحرین کی اقلیتی آبادی اور بیرونی شہریت یافتگان حکومت کی پشت پر چھپ کر اکثریتی آبادی کو کچلنا طویل المدتی راہ حل نہیں ہے بلکہ مستقبل میں اس کے نہایت خوفناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اور پھر ایک پسی ہوئی قوم کا مزید استحصال ویسے بھی خطرناک نتائج پر منتج ہوسکتا ہے۔
نکولس کرسٹف لکھتے ہیں کہ سنیون کو بھی اب بحرین کے سیاسی ڈھانچے میں شرکت کرنی چاہئے اور انہیں حکومت کو مجبور کرنا چاہئے کہ شیعہ اکثریت کو ان کا مناسب مقام دے دیا جائے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو بحرین کے مستقبل کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔
بحرینی مسائل کے ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آل سعود کی جارحیت کی وجہ سے بحرین کی فضا میں فرقہ واریت کو تقویت ملے گی اور دیگر ممالک بھی اگر اپنی فوجیں آل خلیفہ سس دوستی کی بنا پر اپنی فوجیں اس ملک میں بھیج دیں تو اس سس نہ صرف بحرین کی صورت حال درست نہیں ہوگی بلکہ اس ملک کے حالات مزید بگڑ جائیں گے اور اس ملک میں بیرونی افواج کی کثرت کسی صورت میں بھی ایک اٹھی ہوئی انقلابی قوم کو اس کے جائز مطالبات سے پسپائی پر مجبور نہیں کرسکے گی گوکہ ان کو جانی اور مالی نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن یہ ان کی قومی تاریخ کا حصہ بنے گا اور جس طرح کے تمام طاقتور انسان اورخاندان زوال پذیر ہیں آل خلیفہ خاندان بھی زوال کے بالکل قریب ہے اور آل خلیفہ کے زوال کے بعد ان قوتوں کے لئے بحرین میں کوئی نرم گوشہ ڈھونڈنے سے بھی نہ مل سکے گا۔
source : http://abna.ir