اس وقت مغرب میں محمد، علی، فاطمہ، حسین اور صادق جیسے ناموں کی طرف رجحان بہت شدید ہے اور مغربی ممالک کے خاندانی لوگ ان ناموں سے استفادہ کرنے لگے ہیں ... گرجا نشینوں کو معلوم ہی نہیں ہے کہ کیا مصیبت ان کا انتظار کررہی ہے!اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی – ابنا، نے «المحیط» ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ یہودی محقق «موشی بیجلین» نے کہا ہے کہ امریکی اپنی عظیم فوجی اور معاشی طاقت اور یورپ اپنی اسرار آمیز اور زیرکانہ پالیسیوں کے باوجود اسلام کے فروغ کا راستہ روکنے سے عاجز ہیں اور مستقبل قریب میں اسلام ان ممالک میں پہلے درجے کا دین ہوگا.
یہودی محقق «موشے بيجلين»، نے امریکا اور یورپ کی سماجی صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تاریخ کا جبر اس امر کا باعث ہوا ہے کہ اسلام خواہی کا رجحان براعظم یورپ میں روز بروز بڑھتا رہے اور بقول موشے کے، «اسلام کی اس ثقافتی یلغار» کی پہلی نشانیاں یہ ہیں کہ اس براعظم کے باسیوں نے اپنے بچوں کے لئے اسلامی ناموں کو ترجیح دینا شروع کیا ہے.
اس وقت مغرب میں محمد، علی، فاطمہ، حسین اور صادق جیسے ناموں کی طرف رجحان بہت شدید ہے اور مغربی ممالک کے خاندانی لوگ ان ناموں سے استفادہ کرنے لگے ہیں.
المحیط کے مطابق بيجلين نے کہا ہے کہ امریکا اور یورپ میں مساجد کی تعمیر کا فروغ بھی اس قدر زیادہ ہے کہ ان دو براعظموں میں گرجاگھر تو عجائب گھروں میں تبدیل ہوئے ہیں جبکہ مساجد میں نمازیوں کی تعداد اتنی ہے کہ نماز کے وقت انہیں بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی.
اس اسرائیلی محقق نے اسلام کی طرف مغربی عوام کے اس وسیع اور بڑھتے ہوئے رجحان کے اسباب و عوامل کی طرف اشارہ نہیں کیا اور کہا کہ «مغرب میں اسلام کے فروغ کا تعلق ایران اور شام سے ہرگز نہیں ہے».
موشے بیجلین نے کہا ہے کہ یورپ اور امریکا بالآخر اسلام کے سامنے سجدہ ریز ہونگے مگر اسرائیل اسلام سے متاثر نہیں ہوا اور اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کوئی ایک یہودی بھی مسلمان ہوجائے.
موشے آخر میں اس صورتحال سے اپنے تأسف کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے: گرجا نشینوں کو معلوم نہیں ہے کہ کیا مصیبت ان کا انتظار کررہی ہے۔
source : http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&Id=158070