اردو
Tuesday 23rd of July 2024
0
نفر 0

سعودی شیعوں کے خلاف متعصبانہ پالیسی روکنے کا مطالبہ

سعودی عرب کے"الجبیل" کالج کے طالب علموں نے ایک بیان جاری کرکے کہا ہے کہ اس ملک میں ہر شہری کے حق کی رعایت لازمی ہے اور شیعہ و سنی دونوں کے حقوق مساوی ہیں چو نکہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے بھا ئی ہیں۔

طلبہ نے اپنے اس بیان میں تاکید کی ہے کہ ہم کسی بھی صورت میں سعودی عرب میں شیعہ سنی اتحاد کو ختم نہیں ہونے دیں گے۔ طلبہ کی طرف سے یہ بیان ایسے وقت جاری ہوا ہے کہ جب سعودی عرب کی معدنیات کمپنی کے صدر" خالد بن صالح المدیفر" نے اس ملک کے شیعوں کو نااہل قرار دیا ہے ۔ سعودی عرب کے بعض اہل علم نے اس اشتعال انگیز بیان کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسے ایک گروہ کا موقف قرار دیا ہے۔

سعودی عرب کے روشن خیال افراد نے کہا ہے کہ المدیفر کا بیان شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان اشتعال انگیز اور فرقہ وارانہ جنگ بھڑکانے کے لئے ہے ۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے مشرقی علاقے کے بعض شہروں میں اس ملک کی شاہی اور ڈکٹیٹر حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کا رد عمل ہے اور سعودی عرب کی حکومت میں شامل بعض متعصب حکام بالخصوص آل سعود کی حکومت سے وابستہ اداروں کے سربراہوں نےجو اس ملک کے لئے متعصبانہ اور فرقہ وارانہ نظر رکھتے ہیں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت چاہتے ہیں کہ اس ملک کے عوام کی فکروں کوخراب کر کے ملک میں فرقہ وارانہ فساد برپا کر دیں۔ شیعہ اور سنی اختلاف کی تحریک ایک ایسی پالیسی ہے جس میں بعض متعصب کٹھ ملا پیش پیش ہیں۔

یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب عالمی اداروں کے مطابق اس ملک کی دس سے بیس فیصد آبادی شیعوں پر مشتمل ہے اس کے باوجود وہ اپنے ہی ملک میں تعصب کا شکار ہیں اور دوسرے درجے کے شہری شمار ہوتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ ادارے نے حال ہی میں کہا ہے کہ سعودی عرب کے حکام کی جانب سے شیعوں کے خلاف ہونے والے متعصبانہ اقدامات ظلم و ستم کی حدود سے تجاوز کر گئے ہیں۔

اس ادارے نے اس بات پر زور دیا ہے کہ چونکہ اس ملک میں شیعوں کے خلاف سرکاری طور پر مذہبی،تعلیمی اور عدالتی متعصبانہ پالیسیاں موجود ہیں اس لئے سعودی حکام جان بوجھ کر شیعوں پر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے پر پابندی لگائے ہوئے ہیں۔

سعودی عرب کی سیکورٹی فورسز کی طرف سے شیعوں کو بلاوجہ اور بے قصور گرفتارکرنا اس ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ 

ایک سعودی باشندے "ہاشم الخنیزی کا کہنا ہے کہ اس ملک میں روزانہ دباؤ بڑھتا ہی جا رہا ہے کبھی یہ دباؤ اور سختیاں عورتوں پر کی جا تی ہیں تو کبھی مردوں پر ،لیکن آج سعودی عرب میں مرد اور عورت دونوں آل سعود کی مخاصمانہ، جاہلانہ اور متعصبانہ پالیسیوں کا شکار ہیں۔

سعودی عرب کے مشرقی اور شیعہ اکثریتی علاقوں میں عوامی مظاہروں کے آغاز سے اب تک سینکڑوں عورتوں اور مردوں کو گرفتار کیا گيا ہے۔ سعودی باشندوں کے یہ مظاہرے جو پرامن اور قانونی حقوق کے مطالبے کے لئے ہو رہا ہے، پلیس کی مداخلت کی وجہ سے پرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہو گئے ہیں سعودی عرب کی حکومت عوام کے مطالبات پر توجہ دینے اور انہیں پورا کرنے کے بجائے ان پر وحشیانہ تشدد کر رہی ہے اور اس ملک میں اٹھنے والی ہر حق کی آواز یا تنقید کو کچل کر رکھ دیا جاتا ہے۔

سعودی عرب کی انسانی حقوق کی تنظیم کے صدر" مفلح القحطانی" نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے ادارے میں گزشتہ پانچ برسوں میں تقریبا تیس ہزار شکایات پہنچی ہیں اور سب کی سب انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق تھیں اور سعودی عرب میں سب سے زیادہ شیعوں کے حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔

اس وقت سعودی عرب میں انسانی حقوق کی پامالی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اس ملک کی انسانی حقوق تنظیم کے ایک فعال رکن "حمزہ الحسن "نے اس ملک کو "انسانی حقوق کے قبرستان" سے تعبیر کیا ہے۔


source : http://www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

جزیرہ خالدیہ کی آزادی کے آپریشن میں بدر تنظیم کا ...
بيلجئيم كے بادشاہ كو اسلام قبول كرنے كی دعوت
آزاد اسلامی یونیورسٹی کے زیر انتظام قرآن و عترت ...
امارات کے علاقے ام القیوین میں ایک نئی مسجد کا ...
وفات کے وقت حضرت آدم[ع] کی عمر کتنی تھی ؟
قاہر كے اجلاس میں اسلامی مقدسات كی بے حرمتی كے ...
\"اسلامی مقدس مقامات، عقيدہ اور مسئلہ\" كے موضوع ...
فلسطینیوں کے قتل عام میں امریکی ہتھیار کا استعمال
سعودی عرب کے فوجیوں نے شہر العوامیہ میں شیعہ ...
امریکی اخبار: امریکہ یمن میں سعودی جنگی جرائم میں ...

 
user comment