اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رہورٹ کے مطابق سزا یافتہ طالبعلموں پر الزام لگایا گیا ہے کہ کہ "ان طالبعلموں نے لاؤڈ اسپیکر یونیورسٹی ميں پہنچائے تھے اور وہاں تقریریں کی ہیں و ۔۔۔" لیکن يہ نہیں بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ کس موضوع پر تقریریں کررہے تھے وہ بھی محرم کےمہینے میں! لگتا تو یہ ہے کہ شیعہ طلبہ نے اپنی دائمی ابدی سنت یعنی فرزند رسول حضرت سیدالشہداء علیہ السلام کی عزاداری کا اہتمام کیا ہوگا جس کو یونیورسٹی انتظامیہ نے "غیرقانونی سرگرمیوں" اور "قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی" کا نام دیا ہے اور انہیں اتنی سخت سزا دی جارہی ہے جو شاید بعض جامعات میں دہشت گردوں کو نہیں دی جاتی! نیز لگتا ہے کہ نام نہاد قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کی انتظامیہ نے حق نمک ادا کیا ہے یا پھر یونیورسٹی اہلکار خود شیعہ دشمن تکفیری گروہوں کی نمائندگی کررہے ہیں۔ انتظامیہ کی طرف سے طالبعلموں کے ساتھ دشمن کا سا سلوک کرتے ہوئے ان کی جاسوسی کروانے کی نشانیاں بھی خبر میں موجود ہیں اور مجالس میں شریک طلبہ کی سراغرسانی کی جارہی ہے۔ ملک کی تمام یونیورسٹیوں کو تعلیم سے محروم کئے جانے والے طالبعلم کو داخلہ دینے سے منع کرنے کے لئے ان کو خطوط بھجوائے گئے ہیں؛ یونیورسٹی انتظامیہ عام طور پر اساتذہ پر مشتمل ہوتی ہے لیکن قراقرم یونیورسٹی کی انتظامیہ فوج بھی ہے، پولیس بھی ہے، انتظامیہ بھی ہے، عدلیہ بھی ہے، سزائیں بھی سناتی ہے اور سزاؤں پر عملدرآمد بھی کرتی ہے؛ شیعہ طالبعلموں کو اپنے ملک میں اتنا زبردست ماحول پیدا کرنے کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے؛ خبر کا متن دیکھئے:
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی انتظامیہ کا قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے طلباء کے خلاف سخت کارروائی
غیر قانونی سرگرمیوں کی قیادت کرنے والا ثقلین رضا ہمیشہ کیلئے اور 16طلباء تین سال کیلئے فارغ کرنے کا باقاعدہ نوٹیفیکشن جاری
گلگت ( پ ر) قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کی انتظامیہ نے یونیورسٹی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے طلباء کے خلاف کارروائی کی نوٹیفیکشن جاری کردیا۔ ثقلین رضا کو ہمیشہ کیلئے قراقرم یونیورسٹی سے فارغ کیا گیا ہے اور اور 16طلباء کے داخلے پر تین سال تک پابندی عائد کردی گئی۔
جن طلباء نے سیکیورٹی اہلکاروں سے دست اندازی کرتے ہوئے غیر قانونی طورپر لاؤڈ اسپیکر اور بینرز کیمپس کے اندر لائے اور جن طلباء نے اجتماع میں تقریریں کیں ان پر سات، سات ہزار روپے جرمانہ عائدکردیا گیا۔
جو طلباء اجتماع میں شریک ہوئے ان کی شناخت کا عمل جاری ہے، شناخت کا عمل مکمل ہونے کے ساتھ ان پرپانچ، پانچ ہزار روپے جرمانے عائد ہونگے۔
یونیورسٹی ترجمان کے مطابق کمپیوٹر سائنس کے طالبعلم ثقلین رضا ولد محمد اسماعیل کو قراقرم یونیورسٹی سے ہمیشہ کیلئے فارغ کرنے کے بارے میں اطلاع ہائر ایجوکیشن کمیشن سمیت پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں کو دی گئی ہے۔
جن طلباء کو تین سال کیلئے نااہل (!؟) قرار دیا گیا ہے ان میں بی بی اے کے عباس علی، کامل حسین اور ثاقب علی، بی ایس اکنامکس کے جمال حیدر، بی ایس کمپیوٹر سائنسز کے سید وقار حسین، ریاضیات کے شفقت حسین، آئی آر کے قیصر عباس، انیل عباس، منتظر حسین اور وقار حیدر، کمیونیکشن سٹڈیز کے منتطر عباس اور رضا تابش، ماحولیاتی سائنسز کے شیراللہ، منجمنٹ سائنسز کے حسن اور ماڈرن لنگوئجز کے رضا بیگ شامل ہیں۔
ترجمان کے مطابق جن طلباء پر جرمانے عائد کئے گئے ہیں، وہ جرمانہ بھی ادا کریں گے اور ان کے والدین خود یونیورسٹی آکر یونیورسٹی ذمہ داروں کے سامنے حلف نامے پر دستخط کریں گے ورنہ تو وہ سمسٹر امتحانات میں بھی شریک نہیں ہوسکیں گے۔
اب یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ یہ حضرات کس محکمے سے آکر یونیورسٹی میں حکمران بنے ہوئے ہیں؟ کیا انھوں نے طالبعلموں کو اپنی پیروی کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے یہ سب کچھ کیا ہے؟ فرض کریں کہ اگر ان "نوجوانوں" کو کسی غیر قانونی اقدام سے روکنا مقصود تھا تو کیا یہ نہایت وحشیانہ اور غیرانسانی بلکہ عداوت پر مبنی اقدام کرکے انہيں خاموش کیا جاسکے گا؟ کیا یونیورسٹی کے بظاہر فوجی حکام نے یونیورسٹی کو فوجی چھاؤنی سمجھا ہے جہاں زور زبردستی کے ذریعے ان نوجوانوں کو قانون کا تابع بنایا جارہا ہے؟ یاد رہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق سولہ طالبعلموں کے داخلے پرتین سال تک پابندی لگآئی گئی ہے اور یہ سرکاری اقدام دو گروپوں کے درمیان لڑائی پر منتج ہوا ہے۔
source : http://www.abna.ir