ایران کے جنوب مشرقی صوبے سیستان و بلوچستان کے سرحدی شہر سراوان کی ایک چک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں 14 سرحدی فوجیوں کی شہادت کے سبب ایک بار پھر پاکستان سے متصل ایران کی سرحد پر سکورٹی کے مسئلے پر توجہ مبذول ہوگئی ہے ۔
ابنا: اسلامی جمہوریۂ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے کل سراوان کے علاقے ميں ہونے والے دہشت گردانہ واقعے کے سلسلے میں وزیر داخلہ کو جلد از جلد ایران کی پولس کے تعاون سے ایک کمیٹی تشکیل دینے کے ساتھ ہی اس واقعے کی تحقیقات کی ہدایات جاری کیں ۔صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے اسی طرح سے وزرارت خارجہ کو بھی پابند بنایا کہ وہ ایران اور پاکستان سرحدی سکورٹی معاہدے پر عملدرآمد کے لئے ضروری اقدامات کا جائزہ لے اور اس کے نتائج سے آگاہ کرے ۔ ایران کے وزیر داخلہ کے سیاسی و سکورٹی امور کے مشیر علی عبد اللہی کے بقول ، شرپسند عناصر، سراوان چک پوسٹ پر حملے میں جھڑپ کے بعد پاکستان کی سرحد میں داخل ہوگئے ۔ ایران کا جنوب مشرقی سرحدی علاقہ سراوان ، پہاڑی ہونے اور سخت ودشوار راستوں کے سبب بدستور شرپسند عناصر اور مسلح دہشت گردوں اور انقلاب مخالفین کی آمد ورفت کے لئے مناسب جگہ ہے ۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ سیستان وبلوچستان کا علاقہ اور ایران کی جنوب مشرقی سرحدیں دہشت گردانہ اقدامات کے سبب بدامنی سے دوچار ہوئی ہیں ۔ گذشتہ چند برسوں ميں دہشتگرد عبد المالک ریگی کی زیر کمان گروہ کی تشکیل سے ایران کے سرحدی شہروں میں دہشتگردانہ اقدامات میں کافی اضافہ ہوا ہے ۔ پبلک اور مذہبی مقامات پر بم دھماکے ، مقامی و غیر ملکی شہریوں کو اغوا کرنا ، اغیار اور خاص طور سے امریکہ و نیٹو کے انٹلی جنس افسروں کے ساتھہ روابط اور بیرون ملک ایم کے او جیسے دہشتگرد گروہوں کے ساتھہ تعاون، وہ اقدامات ہیں جو یہ گروہ انجام دیتا رہا ہے ۔ مئی سنہ 2009 میں شہر زاہدان کی مسجد امیرالمومنین میں بم دھماکہ ، 13/ مئی سنہ 2006 میں بم-کرمان روڈ پر بے گناہوں کا قتل عام ، اور اسی طرح 14/ فروری سنہ 2007 میں زاہدان میں سپاہ پاسداران کی بس کو دھماکے سے اڑانا،اس گروہ کے دیگر جرائم رہے ہیں۔ ریگی کے زیر سرکردگی گروہ کے دہشتگردوں نے اپنے جرائم جاری رکھتے ہوئے 18/ اکتوبر سنہ 2009 کو صوبۂ سیستان و بلوچستان کے شہر سرباز میں اکتالیس افراد کا قتل عام بھی کیا جن میں شیعہ و سنّی قبائلی سردار اور سپاہ پاسداران کے بعض کمانڈر منجملہ سپاہ پاسداران کی بّری فوج کے ڈپٹی کمانڈر نور علی شوشتری بھی شامل ہیں۔ دسمبر سنہ 2010 میں بھی چابہار میں نو محّرم کو عزاداروں پر دہشتگردانہ حملہ ہوا جس میں اس علاقے کے سو سے زائد شیعہ و سّنی مسلمانوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ایرانی قوم کے خلاف ریگی دہشتگرد گروہ کے یہ جرائم، ایسی حالت میں انجام پائے کہ اس کے سرغنہ کے اعتراف کے مطابق اس گروہ کے، امریکی سی آئی اے اور اسرائیلی موساد نیز نیٹو کے افسروں اور اسی طرح بعض عرب ملکوں کے انٹلی جنس افسروں اور بیرون ملک ایران کے انقلاب مخالف گروہوں کے ساتھ وسیع روابط رہے ہیں ۔ اس دہشتگرد گروہ کے سرغنہ عبدالمالک ریگی کو ایران کی سیکیورٹی فورسیز نے اپنی نہایت ہی سوجھ بوجھ اور ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دبئی سے قرقیزستان جاتے ہوئے ایران کی فضائی حدود میں گرفتار کرلیا تھا جسے پھر مفسد فی الارض کے عنوان سے اور 79 وحشیانہ جرائم کے ارتکاب کی بناء پر جون سنہ 2010 میں تختۂ دار پر لٹکادیا گیا۔ اس کے باوجود اس گروہ کے باقی ماندہ عناصر،جو مغربی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھہ رابطے میں ہیں اور جنھیں علاقے کے بعض ملکوں کی حمایت بھی حاصل ہے دہشتگردانہ اقدامات انجام دیکر اس علاقے میں رعب و وحشت پھیلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔شواہد و دستاویزات سے اس امر کی غمازی ہوتی ہے کہ ایران کی سرحدوں پر سرگرم دہشت گرد گروہ ، پاکستان میں مسلح ہوتے ہیں ، وہاں ٹریننگ پاتے ہیں اور وقتا فوقتا وہ ایران کی سرزمين میں گھس کر نئی دہشت گردانہ کاروائياں اجام دیتے رہتے ہیں ۔ ان دہشت گردانہ کاروائیوں سے مقابلے کے لئے پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے ۔ اگرچہ اسلامی جمہوریۂ ایران کی فوج اورپولس نیز خفیہ انٹلی جنس اپنی سرحد اور سرزمین کے تحفظ کے لئے ہمہ وقت چوکنا اور ہوشیار رہتی ہیں تاہم سرحدوں اور دہشت گردوں کو کنٹرول کرنے ميں حکومت پاکستان کی کوتاہی اس امر کا باعث بنی ہے کہ پاکستانی سرحدوں سے متصل ایران کے سرحدی علاقوں میں اس طرح کے واقعات رونما ہوں ۔ اس مسئلے کے پیش نظر اور تہران کی تاکید کے سبب ، ایران اور پاکستان کے درمیان دہشت گردانہ کاروائیوں کے خلاف باہمی تعاون ميں اضافے ، دہشت گردی ، انسانوں کی اسمگلنگ اور فروری 2013 میں نقلی کرنسیوں کے مقابلے سے متعلق ایک سکورٹی معاہدے پر دستخط ہوئے تھے ۔ اس معاہدے کی رو سے ایران اور پاکستان کی سرحدوں پر بدامنی کو کم ترین سطح پر پہنچانے کے لئے ایک ورکنگ گروپ تشکیل دینا طے پایا تھا۔اس وقت اس علاقے میں دہشت گردوں کے دوبارہ سرگرم ہونے کے پیش نظر دونوں ملکوں ميں مشترکہ تعاون اور اس معاہدے پر عملدرآمد کی ضرورت بڑھ گئی ہے اسی بنیاد پر صدر مملکت نے ایران کی وزارت خارجہ کو پابند بنایا تاکہ وہ پاکستان کے ساتھ سکورٹی سمجھوتے پر عملدرآمد کے لئے ضروری اقدامات عمل میں لائیں ۔
source : abna