اردو
Tuesday 5th of November 2024
0
نفر 0

ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا...

ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا...

پاکستان میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا73واں یوم وفات انتہائی سادگی اور عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔

 

ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا

ملی نگاہ مگر فرصتِ نظر نہ ملی

ہوئی ہے زندہ دمِ آفتاب سے ہر شے

اماں مجھی کو تہِ دامنِ سحر نہ ملی

بساط کیا ہے بھلا صبح کے ستارے کی

نفس حباب کا تابندگی شرارے کی

کہا یہ میں نے کہ اے زیورِ جبینِ سحر

غم فنا ہے تجھے گنبد فلک سے اتر

ٹپک بلندی گردوں سے ہمراہ شبنم

مرے ریاضِ سخن کی فضا ہے جاں پرور

میں باغباں ہوں محبت بہار سے اس کی

بنا مثال ابد پائدار ہے اس کي

شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے نوجوان نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔ نو نومبر اٹھارہ سو ستتر کو پیدا ہونے والے شاعر مشرق علامہ اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے ۔آپ کے بیٹے جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ ساٹھ سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ان کے والد کے افکار ونظریات اور بااصول زندگی ان کے لئے مشعل راہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں میں اپنے حقوق حاصل کرنے کا ولولہ بیدارکیا۔ کلام اقبال کو اقوام عالم میں بڑی پذیرائی حاصل ہے اور ان کے افکار کو سمجھا جاتا ہے ان کی کئی کتابوں کے انگریزی، جرمنی ، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ ان کی بہو ناصرہ جاوید کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں علامہ اقبال کے افکار اور نظریات کو سمجھنے اوران پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے
فکرِ اقبال کے حوالے سے شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کا شمار اسلامی دنیا کی اہم قد آور شخصیتوں میں ہوتا ہے ۔ اُنیسویں صدی میں دنیائے اسلام میں آنے والے سیاسی زوال کی کیفیت اور معاشرتی زبوں حالی، جس کا بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہوئے مغربی سامراج نے اسلامی دنیا اور خصوصاً بّرصغیر جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے باہمی نفاق کا قرار واقعی فائدہ اُٹھاتے ہوئے دنیائے اسلام میں اپنی حکمرانی کے گہرے پنجے گاڑھ دیئے تھے ۔

یہ درست ہے کہ اقبال کی پیغامی شاعری اور فکری صلاحیتیں اوائلِ عمر میں ہی اُبھر کر سامنے آنے لگی تھیں لیکن اقبال میں چھپے ہوئے فلسفیانہ خیالات کو ایک انگریز پروفیسر سر تھامس آرنلڈ نے اُس وقت پہچانا جب اقبال گورنمنٹ کالج لاہور میں آئے۔ پروفیسر آرنلڈ نے نوجوان اقبال میں موجود اِن فکری تخلیقات کو مہمیز دیتے ہوئے اُنہیں ڈاکٹر آف فلاسفی کی اعلیٰ ڈگری کی تعلیم کےلئے باہر جانے کا مشورہ دیا ۔ ڈاکٹر علامہ اقبال نے بالآخر ڈاکٹریٹ کی یہ ڈگری حاصل کی لیکن یورپی معاشرتی ماحول میں بیرونی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود فکر اقبال پر پیغمبر اسلام (ص) کی زندگی اور قرانی تعلیمات کا اثر غالب رہا۔

اُنہوں نے اپنی اُردو اور فارسی شاعری کے ذریعے تعلیم یافتہ مسلمانوں کےلئے ایک فلسفیانہ نظریہ مہیا کر دیا اور اُن میں دینی اور ملّی رجحان پیدا کر دیا۔ یوں تو اُنکی ہردلعزیزی اُن کے کمالِ شاعری کی وجہ سے تھی لیکن اِس کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ وہ مسلم ذہن کی اُس ضرورت کو پورا کر رہے تھے کہ اُسے اپنے لئے ایک لنگر مل جائے " ۔ مسلمانوں کی فکرِ ی جہت کو بیدار کرنے اور اُنہیں ایک لڑی میں پرونے والے علامہ اقبال ہی تھے جس کا اظہار اُن کے کلام میں بھی جا بجا ملتا ہے ۔

قلب میں سوز نہیں ، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمد (ص) کا تمہیں پاس نہیں


فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں


چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں


آج بھی ہو جو براھیم (ع) کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا


قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد (ص) سے اُجالا کر دے


کی محمد(ص) سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں


وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے


اقبال والیء کونین علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر تھے۔ حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جوں جوں مدارج طے کیے توں توں سیرت اقبال میں اخلاق مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جھلک دکھائی دینے لگی۔ وہ مظہرِ اخلاقِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن گئے۔ سیرت و کردار اقبال کا عمیق تجزیاتی مطالعہ کریں تو علم ہوتا ہے کہ وہ سنن ھدیٰ یعنی سنن عادیہ کی بھی پیروی فرماتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے اقبالیین نہ جانے ان کو کہاں تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں۔ پروفیسر فرمان اپنی کتاب اقبال اور تصوف میں رقم طراز ہیں کہ حضرت علامہ نے خود فرمایا کہ لوگ مجھے یونیورسٹی کی سیڑھیوں میں ڈھونڈتے پھریں گے لیکن میں تو میر حسن کے قدموں میں ہوں۔ حضرت اقبال مغربی جامعات میں اکتسابِ علم کیلئے ضرور گئے لیکن مغربی تہذیب و اخلاق ان پر اثر انداز نہ ہو سکا۔ جن آنکھوں میں مدینہ و نجف کی خاک کا سرمہ ہو ان کو تہذیبی فسوں کاری خیرہ نہیں کر سکتی۔ وہ مصطفوی، مرتضوی تھے۔ مغربی تہذیب سے بےزاری کا اظہار وا شگاف الفاظ میں کرتے ہیں۔

دیار ِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ زر اب کم عیار ہوگا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پر بنے گا آشیانہ ناپا ئیدار ہوگا

بیداری ملت اسلامی کے لئے لکھتے ہیں:


اُٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق ِ خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کردیں


شمع کی طرح جئیں بزم گہ عالم میں
خود جلیں دیدہ اغیار کو بینا کر دیں

 


source : www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اشعاردرشان حضرت زہرا(علیہاالسلام)
اقبال اور تصورِ امامت
شاعری، اسلام کی نظر میں
حیدر نہ ہوں تو فاتح خیبر نہیں ہوتا
ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا...
دکن میں اردو مرثیہ گوئی کی روایت
خوبصورت افکار
دکن میں اردو مرثیہ گوئی کی روایت (حصّہ دوّم )
اشعاد در شان حضرت امام حسن علیہ السلام
عشق کربلائی

 
user comment