غم و اندوہ سے بھرے یہ ایام علی علیہ السلام سے جدائی کے ایام ہیں، ان دنوں امت اسلامیہ کے مہربان باپ کے فراق میں زمین و آسمان گریہ کناں ہیں، ایسا باپ جو یتیم بچوں کی آہ و بکا اور غموں میں شریک رہا ہے، لیکن کوئی علی علیہ السلام کی تنہائی اور ان کے اندرونی غم و غصّے سے آگاہی نہیں رکھتا تھا۔ علی علیہ السلام وہی بہادر انسان کہ جن کو پیغمبر اکرم نے کل ایمان قرار دیا، پیغمبراکرم ۖ کی رحلت کے بعد ان علی علیہ السلام کنویں کے نزدیک جاکر اس سے راز دل کہا کرتے تھے، یعنی کنوا علی علیہ السلام کا محرم راز تھا۔ اسی طرح جیسے آپ نے فرمایا ہڈی گلے اور کانٹا آنکھ میں رہ گيا تھا، لیکن اس کے باوجود علی علیہ السلام کبھی بھی لوگوں کی ھدایت اور امت اسلامیہ کی خیرخواہی سے غافل نہیں رہے۔ اس تمام تر تنہائی اور منافقوں کی دشمنی کے باوجود، علی علیہ السلام کے ایمان کی روشنی کبھی خاموش نہیں ہوئی اور اپنے اور پرائے سب نے اس سے فیض حاصل کیا۔ زہر میں ڈوبی ہوئي تلوار، دنیا کے شقی ترین فرد کے ہاتھ میں ہے، اور محراب عبادت میں موجود عدل انصاف کے پیکر کےسر کو شگافتہ کررہی ہے، اور علی علیہ السلام کی فزت و ربّ الکعبہ کی آواز نے مومنوں کے دل سے ہمیشہ کا قرار و سکون چھین لیا۔ جی ہاں اسی رات یعنی 21 رمضان المبارک 40 ہجری قمری کو ایسا شخص شہید ہوا کہ دنیا میں دوست و دشمن، سب اس کی عظمت و کمال سے حیران رہ جاتے تھے اور سب نے علی علیہ السلام کی عظمت و بزرگواری کا اعتراف کیا ہے۔
لبنان کے مشہور و معروف مصنف جبران خلیل جبران کا کہنا ہے کہ حضرت علی ابن ابیطالب، اپنی عظمتوں اور فضائل کی بنا پر شہید کردیئے گئے، علی علیہ السلام کے سر پر ضربت ایسی حالت میں لگی کہ آپ نماز میں مشغول تھے اور اپنے پروردگار کے ساتھ راز و نیاز کررہے تھے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام اپنی عمر کے آخری لمحات تک دین مبین اسلام کی ترویج و نشر و اشاعت کے کاموں میں مصروف رہے۔ مولا علی علیہ السلام نے اپنی بابرکت عمر کے آخری گھنٹوں میں اپنے بیٹے حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کو وصیت فرمائی ہے کہ جو تاریخ میں ہمیشہ موجود رہے گي اور انسانوں کے لئے اچھی زندگي گزار کا عظیم درس دیتی ہے۔ مولا علی علیہ السلام نے اس وصیت میں فرمایا، بیٹا حسن، تم اور میرے تمام بچوں اور اہل بیت اور ہر وہ شخص کہ جس تک میری یہ وصیّت پہنچے،سب کو ان امور کی نصیحت کرتا ہوں۔ تقوی الہی کو ہرگز فراموش نہ کرو، کوشش کرو تا دم مرگ دین خدا پر باقی رہو۔ سب ملکر خدا کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رہو، اور ایمان و خدا شناسی کی بنیاد پر متحد اور تفرقے سے باز رہو، پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں، لوگوں کے درمیان اصلاح کا عمل دائمی نماز و روزہ سے افضل ہے اور وہ چیز کہ جو دین کو محو کرتی ہے فساد و اختلاف ہے۔ بزرگ عالم دین اور مفسّر آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، امام علی علیہ السلام کی وصیّت کے اس حصے کے بارے میں لکھتے ہیں۔ اس وصیّت کی ابتدا میں ایک مرتبہ پھر مولا علی علیہ السلام نے تقوی الہی اور پرہیز گاری اختیار کرنے پر تاکید فرمائی ہے، اور نجات کا راستہ بھی یہی ہے، آخرت کے سفر میں انسان کا زاد راہ ، یہی کرامت اور فضائل ہیں کہ جو خداوند متعال کی بارگاہ میں جائینگے۔ اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے امور زندگی میں نظم کی طرف اشارہ کیا ہے، اس سے مراد سماجی، اقتصادی اور سیاسی سلامتی ہے اس کے ساتھ عبادات، گھر کے امور اور تعلیم و تربیت میں نظم بھی شامل ہے۔ یہی نظم جو خداوند متعال نے مقرر فرمایا ہے اس کے دائرے میں عالم ہستی قائم ہے۔ ایسے معاشرے کا شیرازہ بکھر جاتا ہے کہ جو نظم سے عاری ہو اور ہر وہ انسان کہ جو بے نظمی کا شکار رہے، کسی مقام تک نہیں پہنچ سکتا، چاہیے اس میں کتنی ہی صلاحتیں موجود کیوں نہ ہوں۔ لیکن لوگوں کے درمیان اصلاح کا عمل کہ جس کے بارے میں مولا علی علیہ السلام نے فرمایا ہے نماز و روزہ سے بھی بالا تر ہے اور اس کی وجہ بھی واضح و روشن ہے کیونکہ اگر دشمنی اور کدورتوں کو دور نہ کیا جائے تو مسلمانوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔ پیغمبراکرمۖ فرماتے ہیں: واجبات کی انجام دہی کے بعد سب سے افضل عمل لوگوں کے درمیان اصلاح کی ترویج و اشاعت ہے۔
مولا علی علیہ السلام اپنے گرانقدر وصیّت نامے میں اجتماعی، عبادی اور اخلاقی مسائل کے بارے میں اہم نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور وصیّت کو اللہ اللہ کہہ کر شروع کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان امور پر نہایت ہی تاکید کی گئی ہے۔ مولا علی علیہ السلام نے وصیّت کا آغاز یتیموں کے امور سے کرتے ہوئے، فرمایا خدایا، خدایا یتیموں کے حقوق کا لحاظ رکھو، ایسا نہ ہو کہ وہ کبھی بھوکے اور کبھی سیر ہوں اور تمہاری موجودگی میں ان کو کوئی نقصان پہچے۔ یتیموں کے امور کے لحاظ رکھنے پر اسلامی احکام میں بھی تاکید کی گئی ہے اور یہ امر انسان دوستی کی روح کو تازہ کرتا ہے اور ضعیف افراد کی حمایت ہر انسان کی ذمہ داری ہے۔ کتاب اصول کافی میں آیا ہے کہ ایک دن مولا علی علیہ السلام کی خدمت میں شہد اور انجیر کی ایک مقدار ھدیہ کے طور پر بھیجی گئی، علی علیہ السلام نے حکم دیا کہ یتیموں کی ایک تعداد کو لایا جائے اور اس موقع پر مولا علی نے شہد کو اپنی انگلیوں میں لگا کر یتیم بچوں کے منہ میں ڈالا، مولا علی علیہ السلام سے کسی نے کہا کہ آپ کیوں اجازت نہیں دیتے کہ یہ بچے خود شہد کھائیں؟ آپ نے فرمایا کہ امام یتیموں کا باپ ہوتا ہے۔ میں نے شہد ان کے منہ میں ڈالا تاکہ ان کے ساتھ باپ جیسا برتاؤ کرو۔ اس کے بعد مولا علی علیہ السلام نے اپنے وصیّت نامے میں پڑوسیوں کے بارے میں اس طرح فرمایا۔ خدایا خدایا، اپنے پڑوسیوں کےساتھ خوش اخلاقی سے پیش آؤ، کیونکہ پیغمبر اکرمۖ نے اس کی نصیحت فرمائی ہے اور آپۖ نے ہمیشہ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے پر تاکید کی ہے۔ اسلام میں پڑوسیوں کا خاص احترام ہے کیونکہ اسلام مکمل طور پر سماجی دین ہے اور گھر و گھریلوں کے آپسی تعلقات کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
مولا علی علیہ السلام اپنے وصیت نامے میں مزید فرماتے ہیں، خدایا ، خدایا قرآن کے احکام پر عمل کو فراموش نہ کرو، ایسا نہ ہو کہ دیگر لوگ قرآن میں عمل کے حوالے سے تم سے آگے نکل جائيں۔ آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی لکھتے ہیں: مولا کا یہ بیان اس بات کی طرف اشارہ ہےکہ ایسا نہ ہو کہ لوگ صرف قرآن کی تلاوت، قرائت اور تجوید پر ہی قناعت کرلیں اور قرآن کے مفاہیم کو فراموش کردیں، اور اسلام سے بیگانہ لوگ اس پر عمل کریں۔ مثال کے طور پر اغیار اپنے ساز و سامان بنانے میں صداقت اور امانتداری کا لحاظ رکھیں لیکن قرآن پر ایمان لانے والے ایسے نہ ہوں اور یا یہ کہ اغیار اپنے وعدوں پر عمل کریں لیکن اہل قرآن وعدہ خلافی پر اتر آئیں۔ اغیار مختلف علوم کی تحصیل میں منظم طریقے سے ترقی و پیشرفت کریں اور اہل قرآن حصول علم میں سستی سے کام لے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے اسلامی معاشروں میں ہم اس قسم کی مشکلات کا مشاہدہ کررہے ہیں۔
مولا علی علیہ السلام اپنے وصیّت نامے میں نماز کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں، خدایا ، خدایا نماز کو قائم کرو ، کیونکہ یہ دین کا ستون ہے۔ نماز انسان کو ہمیشہ خدا کے ساتھ منسلک اور فرد میں تقوی کی روح کو زندہ رکھتی ہے، لہذا انسان کو فحشا و منکر سے دور رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے اور اسی لئے دین کا خیمہ اسی کے ذریعے قائم ہے۔ لیکن نماز کا ترک کیا جانا انسان کو خدا سے دور کردیتا ہے اور اس کی یاد کو انسان کے دل سے نکال دیتا ہے اور اس طرح انسان گناہ میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ امیرالمومنین اپنے وصیّت نامے میں حج کے بارے میں فرماتے ہیں، خدایا ، خدایا کعبہ خانہ خداہے، ایسا نہ ہو کہ اس کو فراموش کردیا جائے، اگر حج کو چھوڑ دیا جائے، تو مہلت نہیں دی جائے گی اور دوسرے تم کو اپنے جال میں پھسا لیں گے۔ 19 ویں صدی کے اواخر میں برطانیہ کا وزیراعظم ویلیم گلادسٹون کہتا ہے کہ مسلمان ہمیشہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور خانہ خدا کا طواف کرتے ہیں اور محمد ۖ کا نام صبح و شب اپنی زبان پر جاری کرتے ہیں اور یہ امر نصرانیّت اور عیسائیت کے لئے بڑا خطرہ ہے۔ شاباش ہو تم پر اگر قرآن کو نذر آتش اور کعبہ کو ویران اور محمدۖ کے نام کو اذانوں سے محو کرو، یہی کلمات نماز و حج کی اہمیت کے لئے کافی ہیں۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اپنے وصیّت نامے میں فرماتے ہیں خدایا خدایا، راہ خداوند متعال میں کیئے جانے والے جہاد میں اپنے مال اپنی جان اور زبان دریغ نہ کرو۔ جان کے ذریعے جہاد کا مقصد وہی میدان جنگ میں اسلام کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا ہے، مال کے ذریعے جہاد کے معنی ہے کہ اسلام و مسلمانوں کے تحفظ کے لئے لشکر اسلام کے رضاکاروں کی مالی مدد کرنا ہے اور زبان سے جہاد کے معنی ہیں اسلام کی ترقی و پیشرفت کے لئے منطقی دفاع اور مسلسل تشہراتی مہم کا حصہ بنا اور اس لئے زبان اور بیان کا استعمال اور آج کے دور میں ذرائع ابلاغ کا کام بھی یہی ہے بس معلوم ہوا ہے ایک اچھی سوچ کو دیگر لوگوں تک منتقل کرنا بھی جہاد ہے اور اس لئے زبان و قلم کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ البتہ اس بات پر بھی توجہ دیئے جانے کی ضرورت ہے کہ جہاد کے مقدس عنوان سے غلط فائدہ نہ اٹھایا جائے افسوس کا مقام ہے کہ آج بعض دہشتگرد تکفیری گروہ امت اسلامیہ میں تفرقہ پیدا کرنے اور مسلمانون کے قتل عام اور انسانیت سوز جرائم کے ارتکاب میں جہاد کے مقدس لفظ کو استعمال کررہے ہیں اور تکفیری دہشتگرد گروہوں کی جانب سے جہاد کا جو تصور پیش کیا جارہا ہے وہ اسلامی تعلمات اور احکام کے منافی ہے، اور یہ فرق پیغبر اکرمۖ کے دور میں ہونے والے غزؤں اور جنگوں پر معمولی توجہ ڈالنے سے معلوم ہوجائے گا۔ مولا علی علیہ السلام اس وصیّت نامے میں فرماتے ہیں تم پر لازم ہے کہ محبت و دوستی کے رشتوں کو قوی کرو اور بخشش و مہربانی کو اپنی زندگی کا حصہ بناؤ اور اسے فراموش نہ کرو، ایک دوسرے سے روابط کو منقطع نہ کرو اور آپس میں مل جل کر رہو۔ اسلام میں باہمی محبت و دوستی کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور نفرت اور کینہ اور جدائی کی مذمت کی گئی ہے۔ نواسہ رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ جس وقت دو مسلمان آپس میں لڑ جھگڑتے ہیں تو شیطان خوشی کے نقارے بجاتا ہے، لیکن جس وقت دومسلمان آپس میں دوستی اور صلح کرتے ہیں تو شیطان اپنا سر پیٹ لیتا ہے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام اپنے نورانی وصیّت نامے کے ایک اور حصے میں فرماتے ہیں۔ امر بہ معروف اور نہی از منکر کو ترک نہ کرنا اور اگر ایسا کیا تو شرپسند عناصر تم پر مسلط ہوجائینگے اور اس وقت تم جو بھی دعا کرو گے وہ مستجاب نہیں ہوگی۔ ایسی حالت میں دعا کے قبول نہ ہونے کی وجہ اسلامی روایات کی بنیاد پر ہے، روایت ہے کہ جب کبھی بھی انسان کی کوتاہی کی وجہ سے کوئی مصیبت نازل ہو، اس مصیبت کے دور کیئے جانے کے لئے کی جانے والی دعا قبول نہیں ہوگی۔
مولا علی علیہ السلام کے اس آخری کلام یا وصیت پر مسلمان اگر عمل اور اپنی زندگيوں میں اس کو رائج کرے، تو یقینی طور پر دنیا و آخرت میں اسے سربلندی اور عزت و شرف حاصل ہوسکتا ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ علی کو نہیں پہنچانا گیا، علی مظلوم رہے اور مظلومانہ طریقے سے شہادت پائی اور مظلومانہ دفن ہوئے اور آپ کا حرم مطہر امام جعفر صادق (ع) کے زمانے تک پنہاں رہا۔ جی ہاں علی اپنی اعلی اقدار کی شناخت کے بغیر اس دنیا سے چلے گئے اور دنیا ابدی حسرت میں گرفتار ہوگئی۔
source : www.abna.ir