تاریخ صرف پڑھنے پڑھانے کے لئے نہیں ہوتی بلکہ مقام عبرت ہوتی ہے ، ہر تاریخی واقعہ میں ہمارے لئے درس عبرت ہوتا ہے ، جو لوگ تاریخ کو عبرت کے لئے پڑھتے ہیں وہ کبھی ٹھوکر نہیں کھاتے اور اس کے برعکس جو لوگ تاریخ کو صرف واقعہ نگاری کی حیثیت سے دیکھتے اور قصے کہانیوں کے طور پر پڑھتے ہیں تو پھراُن کے ساتھ تاریخ اپنے آپ کو بار بار دہراتی ہے .
تاریخ اسلام کا بھی یہی حال ہے ، تاریخ اسلام کے ہر باب میں ہمارے لئے عبرتیں موجود ہیں ، انقلاب کوفہ ہی کو لے لیجئے جو انقلاب حسینی کا مقدمہ تھا ، اس میں بھی ہمارے لئے بے شمار درس اور عبرتیں موجود ہیں .
جناب مسلم بن عقیل کوفہ پہنچنے کے بعد ہانی بن عروہ کے گھر قیام فرماتے ہیں ، ہانی کا قبیلہ کوفے کے مضبوط قبیلوں میں سے ایک ہے ، سیکڑوں تلوار کے دھنی اس قبیلہ میں موجود تھے جو ہر وقت مرنے مارنے کے لئے آمادہ رہتے تھے ،لیکن حیلہ گر ابن زیاد نے بڑی ہی آسانی سے ہانی کو شکار کر لیا اور کوئی مزاحمت نہیں ہوئی ، یہی وہ چیز تھی جس نے ابن زیاد کے حوصلے بہت زیادہ بلند کردیئے تھے اور اس کا ہاتھ امام حسین (ع) کے گلوئے مبارک تک پہنچ گیا ، ہانی کے قبیلے والے دارالامارہ تک گئے بھی تو بجائے غیرت ایمانی کے قبیلے کا تعصب لے کر گئے جسے ابن زیاد کی معمولی سی چال نے زیر کردیا اور ہانی جیسا اہل البیت (ع) کا مدافع شہید ہوگیا ، اس کی اطلاع جب کوفہ کے دوسرے سرداروں کو ہوئی تو انہوں نے صرف سوگ منانے کو ہی کافی سمجھا اور اتنی جرأتیں اپنے اندر پیدا نہ کرسکے کہ تلواریں سونت کر دار الامارہ کا رخ کر لیتے ، یہاں وہ واقعہ ذکر کرنا ضروری ہے جو ایران کے شہر تبریز میں انقلاب مشروطہ کے دوران محرم 1330ہجری میں پیش آیا تھا ، جس وقت روسیوں نے ایران پر قبضہ کیا اور تبریز کے ایک عالم مجاہد نے روسیوں کے خلاف جد و جہد شروع کی تو روسیوں نے انہیں گرفتار کر لیا ، روز عاشورا ظہر کے وقت تبریز شہر کے مرکز میں ایک بڑے چوراہے پر انہیں پھانسی دی جانے لگی ، اُسی وقت شہر تبریز میں کئی ہزار ماتمی انجمنیں سڑکوں پر عزاداری میں مشغول تھیں اور 20ہزار قمہ زن چمکتی ہوئی چھریاں ہاتھوں میں لئے قمہ زنی میں مصروف تھے ، کچھ مجاہدین ان قمہ لگانے والوں کے پاس گئے اور کہا کہ تم دیکھ رہے ہو قریب ہی میں ایک عالم مجاہد کو پھانسی پر لٹکایا جانے والا ہے ، تم سب کے سب وہاں تک چلو اور روسیوں کو صرف اپنی چھریاں دکھادو تاکہ ایک عالم مجاہد کی جان بچ جائے ، قمہ لگانے والوں نے جو جواب دیا وہ تاریخ میں مقام عبرت بن چکا ہے ، قمہ لگانے والوں نے کہا کہ : ’’امام حسین (ع) کو سیاسی نہ کرو‘‘یہ قمہ لگاتے رہے اور عالم مجاہد کو پھانسی پر لٹکادیا گیا .
انقلاب کوفہ کے وقت بھی ہمیں ایک ایسا ہی جواب تاریخ میں ملتا ہے ، جب ہانی کی شہادت کے بعد جناب مسلم نے شیعہ سرداروں کی میٹنگ کرکے انہیں ہانی کی حمایت میں کھڑے ہونے کو کہا تو سلیمان بن صرد خزاعی نے کہا کہ : امام کی غیر موجودگی میں جہاد کو مکروہ سمجھتا ہوں ، یہ کہہ کر اپنے ساتھیوں سمیت میٹنگ ہال سے اٹھ کھڑے ہوئے اور چلے گئے اور پھر امام کی نصرت تک کو کربلا نہ گئے جب کہ انہوں نے سب سے پہلے امام کو لکھے جانے والے خط پر دستخط کئے تھے ، جناب مسلم نے دیگر شیعوں کو ساتھ لے کر دارالامارہ کا گھراؤ کیا ، حالانکہ ابھی جناب مسلم کے لئے وہ موقع نہیں آیا تھا کہ آپ باہر نکلیں لیکن ایک مظلوم شیعہ پر ہونے والے ظلم نے آپ کو بے چین کردیا اور پھر آپ نے تمام مصلحتوں کی پرواہ کئے بغیر آواز اٹھائی ، آپ کا جوش و ولولہ دیکھ کر دوسرے شیعہ بھی آپ سے ملحق ہوگئے اور ابن زیاد کے ہوش اُڑ گئے ، لیکن یہاں بھی ابن زیاد کی چال کامیاب ہوگئی اور عورتوں کا لشکر مسلم کے ساتھیوں پر حملہ آور ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان عورتوں نے اپنے اپنے مردوں سے تلواریں چھین لیں اور ابن زیاد سے تلوار کے وزن کے برابر سونا لے لیا اور مسلم بن عقیل تنہا رہ گئے اور شہید کر دیئے گئے .
دنیا میں صرف وہی انقلاب کامیاب ہوتے ہیں جن میں خواتین کی حصہ داری بھی ہوتی ہے ورنہ پھر انقلاب کا یہی حشر ہوتا ہے جو کوفہ میں ہوا ، کربلا سے لے کر ایران کے اسلامی انقلاب تک کسی بھی انقلاب کا مطالعہ کرلیجئے میری بات کی تصدیق ہو جائے گی ، خدا کا شکر ہے کہ اب ظلم کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں ہندوستان کے علی گڑھ، لکھنؤ، دہلی، ممبئی، حیدر آباد، کشمیر اور چنئی وغیرہ میں بھی خواتین بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگی ہیں جو امید افزا ہے ، کاش ! دوسرے مقامات پر بھی ایسا ہی ہو جائے .
اگر ہم نے اس مسئلہ میں غفلت برتی اور مصلحت کی چادر اوڑھی تو ہمارے زمانے کے ہانی و مسلم بھی اسی طرح ظلم و ستم سہہ سہہ کرشہید ہوتے رہیں گے ، کیا ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے آیت اللہ باقر الصدر(رح) کی شہادت کافی نہیں تھی ، کیا ہمیں بیدار کرنے کے لئے بنت الہدیٰ کی شہادت کافی نہ تھی ، کیا ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے آیت اللہ مدرسی اور فضل اللہ نوری کی شہادت سبق آموز نہ تھی ،کیا بر اعظم افریقہ کے شمالی نائیجریا کے شیخ ابراہیم زکزکی پر ہونے والے مظالم،ہمارے لئے درس عبرت نہیں رکھتے ؟
شیخ زکزکی کی خطا کیا ہے ؟ یہی ، کہ وہ محمدی اسلام کا پرچار کرتے ہیں ، اہل البیت (ع) کا نام لیتے ہیں ،غریبوں کی مدد کرتے ہیں ، عوام کا خیال رکھتے ہیں ، اور افریقا میں بسنے والے تمام مذاہب ﴿تکفیریوں کے علاوہ﴾ کے پیروکار ان کی حمایت کرتے ہیں ، اپنے ملک کی فضا کو فرقہ وارانہ کشیدگی سے پاک و صاف رکھتے ہیں ورنہ بوکو حرام تکفیریوں نے ملک کی فضا خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے .
شیخ زکزکی کی یہی غلطی ہےنا ، کہ انہیں عوام میں سیاستمداروں سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے ، بچے ، بوڑھے اور خواتین تک ان کو اپنا رہبر تسلیم کرتے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں ، جبکہ سیاستمداروں کے کرپٹ ہونے کی وجہ سے ان کی اطاعت کرنے کو کوئی تیار نہیں ہوتا .
انہی خصوصیات کی وجہ سے شیخ زکزکی اس وقت قید و بلا کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور ہماری غیرت ایمانی کا امتحان لے رہے ہیں ، شیخ زکزکی پر سنگین الزامات عائد کرکے انہیں کورٹ میں پیش کردیا گیا ہے ، اگر خدا نخواستہ سزا ہوگئی تو پھر اس فہرست میں ایک اور شہید ِ راہِ حق کا اضافہ ہو جائے گا اور ہم حسب سابق سوگ مناکر بیٹھ جائیں گے اور پھر کسی اور کا نمبر آجائے گا .
لہٰذا ضرورت ہے کہ شیخ زکزکی کی حمایت میں پُر امن آواز اٹھایئے ، ہندوستانی آئین نے ہمیں یہ حق دیا ہے کہ ہم مظلوموں کے خلاف ہونے والے ظلم و ستم کی مذمت مؤثر انداز میں کر سکتے ہیں ، لہٰذا کتنا اچھا ہو کہ ایک مرتبہ پھر 17جنوری 2016کو پورے بھارت میں ایک ساتھ نائیجیریا کے شہدا کا چہلم منایا جائے اور قرآن خوانی و مجلس کے بعد متحد ہو کر نائیجریا حکومت اور فوج کی ظلم و زیادتی کے خلاف جلوس نکالیں اور مذمتی قرار دادیں پاس کرکے دہلی میں واقع نائیجرین سفارتخانہ تک پہنچائیں یا بھجوائیں اور یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک نائیجرین حکومت شیخ زکزکی کو با عزت رہا نہ کردے اور شہدائے نائیجریا کے ورثا کو معقول معاوضہ نہ دے دے .
source : abna24