ارنا کی رپورٹ کے مطابق عرب اور مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے یوم القدس کے جلوسوں کی کوریج سے گریز کے باوجود عالم اسلام اور دنیا کے دیگر ملکوں میں یوم القدس کے جلوس نکالے گئے۔
اس رپورٹ کے مطابق امریکہ کے دباؤ اور صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کی بنا پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے بعض ملکوں میں یوم القدس کے جلوسوں پر پابندی لگائی گئي تھی لیکن ان ملکوں کے عوام نے مختلف علاقوں میں سڑکوں پرنکل کر اسرائیل کے پرچم نذرآتش کیے اور فلسطین کے پرچم لہرائے۔
تیونس میں عوامی انقلاب کے بعد ملک کی تاریخ میں پہلی بار یوم القدس کے جلوس نکالے گئے کیونکہ ماضی میں زین العابدین بن علی کی حکومت نے صیہونی حکومت کے خلاف ہر قسم کے مظاہروں پر پابندی لگا رکھی تھی۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گيا ہے کہ عراق، یمن، پاکستان ہندوستان، افغانستان، ملیشیا، انڈونیشیا، ترکی اور دیگر ملکوں میں بھی یوم القدس کے حوالے سے بڑے بڑے جلوس نکالے گئے۔ جبکہ تمام تر پابندیوں کے باوجود سعودی عرب کے شہر قطیف میں یوم القدس کے جلوس نکالے گئے۔
دوسری جانب مصر کے ایک دانشور نے کہا ہے کہ مسلمانوں کو صیہونی دشمن کے مقابل اپنی دفاعی طاقت کو مضبوط بنانے کے لیے مشترکہ اسلامی فوج تشکیل دینی چاہیے۔
حسین حمودہ مصطفی نے جمعہ کے روز قاہرہ میں صیہونی حکومت کے سفارت خانے کے سامنے العالم سے بات چیت میں عالمی یوم القدس کی اہمیت کے بارے میں کہا کہ قدس مسلمانوں کے نزدیک بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ اسلامی ملکوں میں اتحاد ہونا چاہیے اور انہیں مذہبی اختلافات سے دوری اختیار کرنی چاہیے، کہا کہ اس وقت امت اسلامی انتقالی مرحلے میں ہے اور عرب بہار کے ساتھ اسرائیل کی خزاں ہونی چاہیے۔ انہوں نے ایک مشترکہ اسلامی فوج کی تشکیل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عرب لیگ کو اپنے ارکان کے درمیان مشترکہ دفاعی معاہدے کے نام سے ایک نیا معاہدہ مرتب کرنا چاہیے۔
حسین حمودہ مصطفی نے مزید کہا کہ عرب لیگ عنقریب ڈکٹیٹر حکومتوں کے خاتمے کی وجہ سے تبدیل ہو جائے گي اور ایک نئی شکل اختیار کر لے گی جس میں قومیں اہم کردار ادا کریں گی۔
source : http://www.abna.ir