حضرت آیت الله جوادی آملی نے کہا: کبھی انسان عوام کی صورت میں ہے تو کبھی خواص اور تعلیم یافتہ ہے، تعلیم یافتہ لوگ فقط کتابوں سے نہیں بلکہ کتابوں کے خالق سے رابطہ قائم کرتے ہیں۔
فقط کتابیں پڑھکر طالب علم عالم دین نہیں بن سکتے
ابنا: رپورٹ کے مطابق، مفسر عصر حضرت آیت الله عبد الله جوادی آملی نے کل ظھر سے قبل اپنے سلسلہ وار تفسیر قران کریم کے درس میں سورہ مبارکہ سبا کی تفسیر کرتے ہوئے کہا: اس سورہ میں قیامت کے حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے، بعض مشرکین فرشتے، جنات، مقدس ہستیوں، ستاروں اور اس کے مانند اشیاء کی پرستش کرتے رہیں ہے، قیامت کے دن ان کے خداوں سے سوال ہوگا کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کیا کرتے تھے؟ یقینا وہ ان کی عبادتیں کیا کرتے تھے تو پھر استفسار کس لئے ہے؟ سوال حالات و حقائق سے آگاہی کے لئے نہیں ہے بلکہ سوال میں توبیخ اور اعتراض موجود ہے۔
انہوں نے آیت ''وَیَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیعًا ثُمَّ یَقُولُ لِلْمَلَائِکَةِ أَهَؤُلَاء إِیَّاکُمْ کَانُوا یَعْبُدُونَ، اور ہم نے کسی بستی کی طرف کسی تنبیہ کرنے والے کو نہیں بھیجا مگریہ کہ وہاں کے مراعات یافتہ لوگ کہتے تھے: جو پیغام تم لے کر آئے ہو ہم اسے نہیں مانتے‘‘ کی جانب اشارہ کیا اور کہا: قیامت میں خداوند متعال کا ان افراد سے سوال کا انداز اعتراض آمیز ہے، جیسا کہ ہم عوام میں بھی اس چیز کا مشاھدہ کرتے ہیں کہ فلاں انسان سے سوال کیا گیا، فلاں کو مورد استفسار قرار دیا گیا، اس آیت میں جن کے بارے میں سوال کیا جائے گا وہ فرشتوں کی ذات ہے اور جواب میں انہوں نے بھی مشرکین کی عبادت کا انکار نہیں کیا بلکہ انہوں نے اسم طرح خدا کے سوال کا جواب دیا کہ فقط تو ہی لائق عبادت و پرستش ہے۔ ابتدائے اسلام کے مشرکین کی قسمیں ھیں اور وہ مرسل اعظم کی تین طرح سے توہین کیا کرتے تھے، قرآن کریم کی، آپ کی ذات گرامی کی اور آپ کی سیاسی سرگرمیوں کی۔
قران کریم کے اس نامور مفسر نے آیت کریمہ ''وَإِذَا تُتْلَى عَلَیْهِمْ آیَاتُنَا بَیِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَذَا إِلَّا رَجُلٌ یُرِیدُ أَن یَصُدَّکُمْ عَمَّا کَانَ یَعْبُدُ آبَاؤُکُمْ وَقَالُوا مَا هَذَا إِلَّا إِفْکٌ مُّفْتَرًى وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءهُمْ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِینٌ، اور تمہارے اموال و اولاد ایسے نہیں جو تمہیں ہماری قربت میں درجہ دلائیں سوائے اس کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پس ان کے اعمال کا دگنا ثواب ہے اور وہ سکون کے ساتھ بالا خانوں میں ہوں گے۔‘‘ کی جانب اشارہ کیا اور کہا: سحر و جنون اور جھوٹ کا مرسل اعظم(ص) پر مشرکین کی طرف سے الزام سیاسی مقاصد کا حامل تھا، حضرت موسی(ع) پر بھی فرعون نے حضرت موسی(ع) کی قوم سے کہا کہ پیغمبر تمہیں شھر بدر کرنا چاہتے ہیں، تمہارا دین بدلنا چاہتے ہیں، اسی طرح پیغمبر اسلام (ص) کے لئے بھی مشرکین کہتے کہ وہ تاریخ، غرور، قومیت اور نامور افراد کے آثار کو مٹانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے آیت ''وَمَا آتَیْنَاهُم مِّن کُتُبٍ یَدْرُسُونَهَا وَمَا أَرْسَلْنَا إِلَیْهِمْ قَبْلَکَ مِن نَّذِیرٍ ، اور جو لوگ ہماری آیات کے بارے میں سعی کرتے ہیں کہ (ہم کو) مغلوب کریں یہ لوگ عذاب میں حاضر کیے جائیں گے‘‘ کی جانب اشارہ کیا اور کہا: قران کریم کا کہنا ہے کہ تمہیں اپنی باتوں کے اثبات کے لئے عقلی اور نقلی دلیلوں کی ضرورت ہے، نقلی دلیلیں بھی یا تو آسمانی وحی ہیں یا معصوم کا قول و عمل ہے، اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ وحی کلام نہیں ہے بلکہ طرز تکلم ہے، ہمارے پاس موجود قران کریم عین وحی مگر یہ مرسل اعظم (ص) کے اوپر نازل ہوا اور آپ نے ہمیں سنایا، قران کریم اگر چہ عین وحی ہے مگر ہمارے لئے نقل الوحی ہے یعنی وہ وحی جو مرسل اعظم(ص) پر نازل ہوئی، چوں کہ وحی کوئی کلام نہیں ہے بلکہ طرز تکلم ہے، لھذا کہا کہ تمہارے پاس اپنی باتوں کے لئے دلیل ہونا چاہئے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی باتیں بے بنیاد اور اس کا سرمنشاء غرور ہے۔
دنیا میں کوئی بھی سانحہ معمولی نہیں
حضرت آیت الله جوادی آملی نے آیت شریفہ ''وَکَذَّبَ الَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ وَمَا بَلَغُوا مِعْشَارَ مَا آتَیْنَاهُمْ فَکَذَّبُوا رُسُلِی فَکَیْفَ کَانَ نَکِیرِ، اور ان کے پہلے والوں نے بھی انبیاء علیھم السّلام کی تکذیب کی ہے حالانکہ ان کے پاس اس کا دسواں حصّہ بھی نہیں ہے جتنا ہم نے ان لوگوں کو عطا کیا تھا مگر انہوں نے بھی رسولوں کی تکذیب کی تو تم نے دیکھا کہ ہمارا عذاب کتنا بھیانک تھا‘‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: مرسل اعظم (ص) پہلے نبی نہیں تھے کہ بلکہ آپ سے پہلے فراوان انبیاء الھی علیہم السلام کو، ان کی کتابوں کو جھٹلایا گیا، مگر مرسل اعظم (ص) کے جھٹلانے والوں کے پاس گذشتہ جھٹلانے کی جائداد اور ان کی حیثت کا دسواں حصہ بھی ان کے پاس نہیں تھا مگر خداوند متعال فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں ایسا عذاب دیا کہ فقط ان کا نام باقی رہ گیا۔ جب کوئی مورخ ان کے بارے میں تحقیق کرے گا تو ان کے نام تاریخ سے نکالے گا، یا اس نے ایک دوسری جگہ پر یوں فرمایا کہ ''کَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالأَمْسِ‘‘ گویا اس سرزمین پران کا وجود ہی نہیں تھا۔ ایک سنٹی میٹر کی گھاس جب زمین سے اکھاڑ کر پھینک دی جاتی ہے تو گویا اس کا وجود ہی نہیں تھا، توجہ رہے کہ ایک سنٹی میٹر کی گھاس کو اکھاڑ کر پھینک دینے اور تناور درخت کو اکھاڑ کر پھینکنے میں فرق ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ہم سونامی اور زلزلوں کو معمولی چیز سمجھتے ہیں، اس دنیا میں کوئی بھی سانحہ معمولی نہیں ہوتا، آپ سبھی نے دیکھا کہ ماضی میں شمال کا عظیم حصہ سوویت یونین کے اختیار میں تھا مگر پگھلتے برف کی طرح سوویت یونین ٹکڑوں میں بٹ گیا، نہ کوئی انقلاب آیا، نہ کوئی بغاوت ہوئی اور نہ ہی لوگوں نے قیام کیا۔
فقط کتابیں پڑھکر طالب علم عالم دین نہیں بن سکتے
حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے استاد نے آیت کریمہ ''قُلْ إِنَّمَا أَعِظُکُم بِوَاحِدَةٍ أَن تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ثُمَّ تَتَفَکَّرُوا مَا بِصَاحِبِکُم مِّن جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِیرٌ لَّکُم بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیدٍ ، پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہیں صرف اس بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے لئے ایک ایک دو دو کرکے اٹھو اور پھر یہ غور کرو کہ تمہارے ساتھی میں کسی طرح کاجنون نہیں ہے۔ وہ صرف آنے والے شدید عذاب کے پیش آنے سے پہلے تمہارا ڈرانے والا ہے نہ کہ پہلے والوں نے بھی انبیاء علیھم السّلام کی تکذیب کی ہے حالانکہ ان کے پاس اس کا دسواں حصّہ بھی نہیں ہے جتنا ہم نے ان لوگوں کو عطا کیا تھا مگر انہوں نے بھی رسولوں کی تکذیب کی تو تم نے دیکھا کہ ہمارا عذاب کتنا بھیانک تھا‘‘ کی جانب اشارہ کیا اور کہا: خداوند متعال انسانوں کو تین بنیادی اصولوں کی جانب دعوت دیتا ہے، اس کا فرمان ہے کہ اے پیغمبر لوگوں سے کہدو کہ میں لوگوں کو ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں۔ موعظہ اور تقریروں میں فرق ہے، اگر انسان میں موعظہ کی صلاحیت موجود ہو تو لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لے گا اور یہی حقیقی موعظہ ہے، خداوند متعال موعظہ کرنے والا ہے اور اس کا رسول موعظہ کرنے والا ہے، اگر آپ دیکھ رہیں کہ ہماری تقریروں میں اثر نہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے کچھ باتیں حفظ کرلی ہیں اور اسی کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں، جنگ بدر و حنین و خبیر و خندق میں جاںفشانی کرنے والے اتنے سارے لوگ سب کے سب مرسل اعظم(ص) کے گرویدہ تھے جو آپ کے موعظہ کا اثر تھا۔ تین بنیادی اصولوں میں سے پہلا اصول یہ ہے کہ آگاہ رہیں کہ خدا موجود ہے اور اس بارے میں غور کریں ہم کس طرح اس سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔
انہوں نے فرمایا: انسان خود بخود اُگنے والی گھاس نہیں ہے، انسان ایک لاجواب باغبان کی بے مثل کھیتی ہے، کیا آپ نے بغیر کسان کے کھیتی دیکھی ہے کیا آپ نے بغیر معمار کے مکان دیکھا ہے، ''وَاللَّهُ أَنبَتَکُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا‘‘ جس نے ہمیں بنایا اس کے لئے قیام کریں۔
source : www.abna.ir