پیرس میں گذشتہ ہفتے مسلح افراد کے حملے کا نشانہ بننے والے فرانسیسی رسالے چارلی ہیبڈو نے اپنا وہ نیا شمارہ فروخت کے لیے پیش کر دیا ہے جس کے سرورق پر پیغمبرِ اسلام کا خاکہ شائع کیا گیا ہے۔ یہ جریدے کے دفتر پر ہونے والے حملے میں 12 افراد کی ہلاکت کے بعد شائع ہونے والا پہلا شمارہ ہے۔اطلاعات کے مطابق چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملے کی وجہ ماضی میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت ہی بنی تھی۔عموماً اس طنزیہ میگزین کے ایک شمارے کی زیادہ سے زیادہ 60 ہزار کاپیاں شائع ہوتی ہیں مگر رسالے کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس بار پوری دنیا میں اس کی مانگ میں اضافے کی وجہ سے تازہ شمارے کی 30 لاکھ کاپیاں شائع کی گئی ہیں۔تازہ شمارے کے سرورق پر پیغمبرِ اسلام کے خاکے کے علاوہ رسالے کے اندر بڑی تعداد میں ایسے خاکے شامل کیے گئے ہیں جن میں 'مسلم انتہاپسندوں‘ کو دکھایا گیا ہے۔یہ رسالہ انگریزی اور عربی سمیت چھ زبانوں میں دستیاب ہے ۔ اس رسالے کی اشاعت سے قبل ہی اس کا متنازع سرورق فرانسیسی ذرائع ابلاغ میں گردش کر رہا تھا۔فرانس کے علاوہ امریکہ میں واشنگٹن پوسٹ اور برطانیہ میں گارڈین کے علاوہ جرمنی اور اٹلی کے اخبارات میں بھی اس سرورق کا عکس شائع ہوا ہے۔ اتوار کو پیرس میں تقریباً پندرہ لاکھ افراد نے ہلاک شدگان کی یاد میں منعقدہ ریلی میں شرکت کی تھی۔ ادھر فرانس کے وزیرِ اعظم منوئل والس نے کہا ہے کہ فرانس کی جنگ دہشت گردی اور انتہاپسندی سے ہے، مسلمانوں سے نہیں۔ فرانس میں دس ہزار فوجیوں کو یہودی عبادت گاہوں، مسجدوں اور ہوائی اڈوں پر تعینات کیا گیا ہے۔
مصر کی الا زہر یونیورسٹی نے چارلی ہیبڈو کے اشتعال انگيز اقدامات جاری رہنے کی مذمت کی ہے۔ قاہرہ سے فرانس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مصر کی الازہر یونیورسٹی نے اعلان کیا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کے توہین آمیز خاکے شائع کرنے سےمسلمانوں میں مزید غم غصے کی آگ بھڑکے گی۔ الازہر یونیورسٹی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کا مقصد صرف مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنا ہے ۔ دوسری جانب مسلم علماء کی عالمی یونین نے بھی فرانس میں چارلی ہیبڈو کے اقدام پر کڑی تنقید کی ہے ۔ اس یونین نے ایک آج بدھ کے روز ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ اس جریدے ميں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا توہین آمیز خاکہ شائع کرنا، ایک غیر عاقلانہ اور غیر منطقی اقدام ہے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہےکہ چارلی ہیبڈو کے اقدامات سے مسلمانوں میں ایک بار پھرشدید غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔
source : www.abna.ir