امریکہ کی ویسکانسین یونیورسٹی کے سیاسی علوم کے ایرانی استاد اور اسلام اور ڈیموکریسی جیسی کتابوں کے مصنف علی ابو طالبی نے امریکی ویبسایٹ پر ای پیک پر ایک مضمون میں کہ جو ایران میں سیاسی اسلام کی پیدائش کی کیفیت اور خود کش عناصر کے اس میں نہ پنپنے نیز اسلامی ڈیموکریسی اور مسلمانوں کی شدت پسندی کے درمیان موازنہ کے موضوع پر مشتمل ہے لکھا ہے : اسلامی ڈیموکریسی ان مسلمان نیم فوجی گروہوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کہ جو خود کش کاروائی کرتے ہیں ایک جائز ہتھیار بن سکتی ہے ۔
اس بنیاد پر ایک اسلامی واقعی ڈیموکریسی کا نمونہ ثقافتی اور قومی امور میں اپنی پہچان بنانے کی خاطر جھڑپوں کے حل و فصل میں قانون اور ضوابط پر مبنی اقدار کر پیش کرنے کہ جو آیڈیل اور غیر حزبی اور گروہی ہوتی ہیں ان گروہوں کے لیے قانونی اقدار کے ہمراہ کہ جو اجتماعی ، اقتصادی اور سیاسی طاقت کے منابع پر ایک دوسرے کے رقابت کرتے ہیں ،تمایل رکھتی ہے ۔
لکھنے والے نے آگے ایران کو حقیقی اسلامی ڈیموکریسی کے ایک نمونے کے طور پر یاد کرتے ہوئے لکھا ہے : ایران ایک ایسامسلمان ملک ہے جس میں لٹی کلچر لوگ رہتے ہیں اور جس کے سیاسی ،اجتماعی ، اقتصادی منابع اور سیاسی اور ملکی طاقت کی جدید تقسیم بندی موجود ہے جس میں انتہائی لائق علماء کی نگرانی میں جمہوریت پر مبنی آزاد سیاسی رقابت کا چلن ہے اور گذشتہ ۳۷ سال میں اس نے ملٹی کلچر کے کامیاب تجرے کے تحت عرصہء سیاست میں اپنا وجود منوایا ہے ۔ اس مضمون کے لکھنے والے نے آخر میں یاد دلایا : اس وقت ایران کی پارلیمنٹ میں اکثریت غیر علماء کی ہے اور بہت سارے صاحبان فن اور بیوروکریٹرس حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہیں ایران ایک ایسا ملک ہے کہ جو اسلام کی مناسب شفافیت کے ساتھ چل رہا ہے اور نئی اسلامی دیموکریسی جانب حرکت کرتے ہوئے ایک تبدیل شدہ شکل میں ظاہر ہو رہا ہے ۔
source : abna24